کراچی میں بے گناہ نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار کی بریت پورے معاشرے پر بجلی بن کر گری ہے۔ لوگوں کا نظام انصاف سے اعتماد پہلے ہی بہت کم تھا۔ ایسا سوچنے والوں کی یہ رائے مزید پختہ ہوئی ہے کہ پاکستان میں انصاف کا حصول ایک ایسی عیاشی ہے جیسے اصل حکمران اشرافیہ جو تعداد کے حوالے سے ایک فیصد سے بھی کم ہے کے سوا کوئی اور حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ یہ بالکل سیدھا کیس تھا۔ جعلی پولیس مقابلے کے بارے میں تمام شواہد بھی سامنے آچُکے تھے سول سوسائٹی کی زبردست کاوشوں اور اعلیٰ ترین حکام کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود کراچی میں انسداد دہشتگردی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 15 ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اغوا اور جعلی پولیس مقابلہ تھا۔جج نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ نقیب اللہ کا اغوا اور جائے وقوع پر ان کا قتل ثابت ہوتا ہے، مقتول پر دہشت گردی کی ایف آئی آر بھی غلط ثابت ہوگئی تاہم عدالت نے قانونی اور تکنیکی بنیادوں پر اس معاملے کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نامزد ملزمان اس قتل میں ملوث تھے۔اس موقع پر مقتول کے ورثا کے وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ اس فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بجلی سے انصاف تک پاکستان میں ہر چیز کا بریک ڈاؤن ہو رہاہے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے رہے اور ان کا موقف تھا کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ قتل کی اس بہیمانہ واردات کے بعد مقتول نقیب اللہ کا سوشل میڈیا پروفائل سامنے آیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔نقیب اللہ کا پروفائل وائرل ہوگیا اور چھوٹے بڑے تمام چینلوں اور اخبارات کی زینت بن گیا۔ ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ یہ ایک طرح کا قومی ایشو بن گیا۔ پی ٹی ایم نے اس معاملے پر زبردست احتجاج کیا کراچی سمیت ملک کے کئی مقامات پر بڑے بڑے اجتماعات ہوئے جس میں اس وحشیانہ واقعہ پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دباؤ اتنا بڑھا کہ 2018 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے
مقتول کے والد سے ملاقات کی۔ جس کے بعد آئی ایس پی آر نے باقاعدہ بیان جاری کرکے بتایا کہ آرمی چیف نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انصاف کے لیے فوج ان کا تمام تر ساتھ دے گی۔جنرل باجوہ کا وعدہ مکمل طور پر دھوکہ ثابت ہوا اور مقتول کے والد انصاف کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے کینسر کا شکار ہوکر خود بھی انتقال کر گئے۔ اس کیس کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ دوران تحقیقات ایڈیشنل آئی جی سندھ ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں بننے والی ٹیم نے نہایت محنت اور باریک بینی سے حقائق تلاش کرکے رپورٹ حکومت کے حوالے کی جس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ نقیب اللہ کو جس پولیس مقابلے میں مارا گیا وہ طے شدہ تھا۔ ساتھ ہی انکوائری رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے 2011 سے 2018 کے درمیان کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں کے دوران 444 افراد کو ہلاک کیا۔ راؤ انوار اس دوران منظر عام سے غائب ہوگیا۔ اسے محفوظ راستہ دینے کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے اس روز پیش ہی نہ ہوا۔ دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب اس وقت کے مشہورزمانہ چیف جسٹس ثاقب نثارانصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھ کر باربار بے تابی سے پوچھتے رہے کہ راؤ انوار صاحب تشریف لائے ہیں یا نہیں؟ ثاقب نثار عدالتی اختیارات کے ہتھوڑے کے ساتھ زبان کو بھی کھل کر استعمال کرتے تھے۔ راؤ انوار کے لیے ان کی نیاز مندی دیکھ کر سب کو پتہ چل گیا کہ کونسے ہاتھ سارا معاملہ نمٹا کر اپنے اثاثے کوئی خراش آئے بغیر واپس اسی پوسٹ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ بعد جب راؤ انوار نے نام نہاد گرفتاری دی تو ریاست پاکستان نے ننگی حمایت و شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے گھر کو ہی سب جیل قرار دے دیا۔ اس دوران کچھ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ گرفتار راؤ انوار جب چاہیں اس نام نہاد سب جیل سے نکل کر جہاں جانا چاہتے ہیں چلے جاتے تھے۔ پولیس کا سکیورٹی دستہ پروٹوکول کے لیے ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اب سادہ سا سوال ہے کہ ایک سنگین جرم جو خود پولیس کی اپنی انکوائری رپورٹ میں ثابت ہو جائے، اسکے خلاف ملک بھر میں آواز اٹھائی جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ ملک کا سب سے بااختیار عہدیدار آرمی چیف خود ورثا کو انصاف کی فراہمی کا یقین دلا دے اسکے باوجود بھی قاتل نہ صرف بچ کر نکل جائیں اور اپنے کیے پر فخر کا اظہار بھی کریں تو پھر انصاف لینے کا اور کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ یوں تو عدالتوں میں آئے روز عجیب و غریب فیصلے ہورہے ہیں۔ ان کی تفصیل لکھنے کے لیے کئی کتابیں مرتب کرنا ہوں گی۔ نمونہ کلام کے طور صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں توہین مسجد نبویؐ کیس میں شیخ رشید اور ان کے بھتیجے راشد شفیق دونوں بری ہوگئے۔ پوری دنیا نے دیکھا اور آج بھی ویڈیو موجود ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے حجاز مقدس جانے سے پہلے شیخ رشید پیشگی وارننگ دے رہے ہیں کہ دیکھنا وہاں ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ ایسا ہی ہوا پھر یہ بھی سب نے دیکھا وہاں پہلے سے موجود شیخ رشید کے بھتیجے راشد شفیق نے سینہ تان کر اس قبیح فعل کا کریڈٹ لیا اور یہ بھی کہ حکومتی وفد مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں آنے کے قابل نہیں اور ہوٹلوں میں دبک کر بیٹھا ہوا ہے۔اب ایسی شہادتوں کے باوجود بھی چچا، بھتیجا دونوں بری ہو جاتے ہیں تو حیران ہونا چاہیے یا پریشان؟ ان سطور کے تحریر کیے جانے کے دوران ہی خبر آگئی کہ لیاری وار گینگ کے سپریم“ کمانڈر“ عزیر بلوچ 25 ویں کیس میں بری ہوگئے یوں مقدمات سے فراغت کی سلور جوبلی مکمل کرلی۔ اب اس پر کیا تبصرہ کریں؟ انصاف کا بریک ڈاؤن نہیں ہوا، انصاف کا جنازہ تو کب کا نکل چکا ہے۔اب مردہ خراب ہو رہا ہے، جج صاحبان اکثر کہہ دیتے ہیں ہم کیا کریں استغاثہ کیس ہی ثابت نہیں کرسکا جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ جج کچھ کرنا چاہیں تو کوئی روک ہی نہیں سکتا۔