قارئین ،گزشتہ کالم میں کوشش کی تھی کہ صدارتی اور جمہوری نظام کا تقابلی جائزہ پیش کروں، میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ قیادت کو اہل،مخلص،بے لوث اور دیانتدار ہونا چاہئے مگر اس کیساتھ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کا با اختیار ہونا بھی ضروری ہے،اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حوالے سے انتظامیہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، انتظامیہ یعنی بیوروکریسی جو کسی بھی نظام کا چہرہ ہوتی ہے وہ بھی با اختیار اور با اعتماد ہونی چاہئے،جمہوری نظام میں منتخب نمائندوں اور صدارتی نظام میں کابینہ یا حکام کا کام صرف فیصلہ سازی کرنا ہوتا ہے،فیصلوں کو عملی شکل انتظامیہ نے دینا ہوتی ہے اور انتظامیہ بے اختیار ہو اور اسے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
ثمرات عوام کو منتقل کرنے کیلئے دنیا بھر میں اس حوالے سے ذمہ داروں کو با اختیار بنایا جاتا ہے،لیکن اگر فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے اور قوانین پر عملدرآمد کرانے کے ذمہ داروں کے ہاتھ باندھ دئیے جائیں گے یا ان کو نا پسندیدہ اور مشکوک سمجھا جائے گا تو فیصلہ اور قانون سازی بے کار کی مشقت ہی ہو گی،دنیا بھر میں ریاستی مشینری کو با اختیار بنا کر فعال اور متحرک کرنے سے ہی نتائج حاصل کئے گئے،ہمارے ہاں مگر گنگا الٹی بہائی گئی،انتظامی مشینری کو نہ اختیار دیا گیا نہ اعتماد،اعزاز نہ اکرام،مگر خطرے اور خوف کی لا تعداد تلواریں ان کے سر پر لٹکا دی گئیں،ہاتھ پائوں باندھ کر شرط عائد کی گئی کہ ریس جیتو،ترقی یافتہ ممالک میں چار پانچ سال کیلئے حکومت میں آنے والوں کو اعزاز و مراعات دی جاتی ہیں مگر اعتماد اور اعتبار صرف ریاستی مشینری پر کیا جاتا ہے جو کسی سیاسی جماعت کی وفادار نہیں بلکہ ریاست کی وفادار ہوتی ہے کہ اس کے افسروں اور کارندوں کو کم از کم 25 سال کیلئے ریاست ذمہ داری تفویض کرتی ہے لہٰذا انتظامی مشینری حکومتی نہیں ریاستی ملازم تصور کی جاتی ہے ایک معمولی سرکاری ملازم کی شکائت پر وزیر کیخلاف انکوائری لگ جاتی ہے،جبکہ ہمارے ہاں کسی منتخب رکن کی بات خواہ غیر قانونی ہو نہ ماننے پر سرکاری ملازمین کو سزا سنا دی جاتی ہے حکومت ریاست کے ملازم کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیتی۔
نظام کوئی بھی ہو انسانی ہاتھوں سے تشکیل پاتا ہے،اس میں ہیومن ایرر کا آنا کوئی غیر فطری یا انہونی بات نہیں،لیکن اس ایرر کو انسان ہی دور کر سکتا ہے،صرف خدائی نظام نقائص سے پاک ہے مگر یہ نظام بھی بد دیانت اور نا اہل حکمرانوں کے ہاتھ میں دیدیا جائے تو خلافت ملوکیت بن جاتی ہے،اس انسانی ایرر کو دور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے کسی نظام پر مکمل طریقے سے عملدرآمد کیا جائے اور نظام پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کیلئے سرکاری مشینری کو با اختیار بنانا ہو گا،کہ انتظامیہ ہی قوانین اور بائی لاز کی شد بد رکھتی ہے،بیوروکریٹ ہی جانتے ہیں کہ آئین کیا کہتا اور قانون کی ڈھیل کہاں تک ہے اور بندش کیا ہے،مگر بد قسمتی سے یہ ساری مشینری بے وقعت کر دی جاتی ہے،بے اختیار افسروں اور ملازمین سے نتائج مانگے جاتے ہیں،کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
دوبارہ عرض ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہی کسی نظام کی ضمانت ہے،جیسے بلدیاتی نمائندوں کا براہ راست اپنے عوام سے رابطہ ہوتا ہے وہ محلہ اور گلی کے مسائل تک سے آگاہ ہوتے ہیں اور عوام کی براہ راست رسائی میں ہوتے ہیں اس لئے بہتر انداز سے مسائل حل کر کے ڈیلیور کر سکتے ہیں،اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانے کیساتھ اس میں بہتری کی ہر ممکن کوشش بروئے کار لائی جاتی ہے،جیسے بلدیاتی نمائندے حکومت کے عوام میں نمائندہ ہوتے ہیں ایسے ہی بیوروکریسی حکومت میں ریاست کی نمائندہ اور عوام سے براہ راست رابطہ کار ہوتی ہے،اگر بلدیاتی نمائندوں کیساتھ سرکاری مشینری کو با اختیار کر دیا جائے تو سالوں کے نتائج دنوں میں حاصل کئے جا سکتے ہیں،یہی وجہ کہ برطانوی دور میں کمشنری اور مجسٹریسی نظام کو رواج دیا گیا،جس کے نتیجے میں امن امان کیساتھ شہریوں کو تحفظ اور انصاف کی فوری فراہمی بھی یقینی بنائی گئی،آج بھی دولت مشترکہ کے اکثر ممالک میں یہی نظام کامیابی سے نافذ ہے،دیگر ممالک میں نام مختلف ہیں مگر نظام کی شکل وہی ہے،مگر ہم نے ہر دور میں تجربات کئے اور ہر تجربہ ناکامی کیلئے کیا گیا،جبکہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک نے اسی نظام کو معمولی ردوبدل اور نیا نام دیکر نافذ کیا اور نتائج حاصل کئے۔
ہر منتخب حکومت کو عوام چار یا پانچ سال کیلئے حکومت سازی کا مینڈیٹ دیتے ہیں اور ہر حکومت آئین کے مطابق ریاستی نظام چلانے کی پابند ہوتی ہے،قانون سازی میں بھی با اختیار مگر دستور کے تابع،آئین میں ترمیم بھی دوتہائی اکثریت سے کرنے کی اہل مگر دستور کی روشنی میں دستور کیخلاف آئین میں ترمیم ممکن ہے نہ قانون سازی،عجیب بات مگر یہ کہ ریاست کا نظام چلاتے ریاستی مشینری کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا بے اعتماد کر کے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے،تحریک انصاف حکومت کے پاس اب جو مہلت ہے وہ انتخابی مہم میں جانے کی ہے،اب اگر حکومت نے عوامی عدالت میں جانے کیلئے اپنا کیس تیار کرنا ہے تو اسے انتظامیہ کو با اختیار کر کے نتائج مانگنے ہوں گے،اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کو ہدف دیا جائے بھرپور اختیار کیساتھ،کارکردگی دکھانے کیلئے مناسب وقت بھی فراہم کیا جائے،البتہ کڑی نگرانی بھی کی جائے نتائج مطلوبہ نہ ہوں تو باز پرس کی جائے اور اچھی کارکردگی پراعزاز و اکرام کیساتھ انعام سے بھی نوازا جائے،سالانہ خفیہ رپورٹ میں اس کامیابی کا تذکرہ کیا جائے اور وقت آنے پر ترقی اور انکریمنٹ دی جائے،بلا وجہ تبادلوں کی روایت ختم کی جائے،سابق حکمرانوں سے وفاداری کے الزامات سے گریز کیا جائے،مالی اور انتظامی خود مختاری دیکر نتائج مانگے جائیں۔
بیوروکریٹ بھی پاکستانی شہری اور آئین کے پابند ہوتے ہیں،ان کی اندرون بیرون ملک تربیت پر قومی خزانے سے بھاری سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے،بیوروکریٹ دراصل قومی اثاثہ ہوتے ہیں اور حکومت قومی اثاثوں کی حفاظت کا عزم لیکر آتی ہے لیکن احتساب کے نام پر مالی اثاثوں کی حفاظت کا اہتمام بہت ہوتا ہے مگر اس انتظامی اثاثہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو قومی نقصان سے کم نہیں،ہمارے ہاں نظام کی ناکامی کی واحد وجہ اس اثاثے کی حفاظت نہ کرنا ہے،دانش اور تعلیم و تجربہ کے حامل اس اثاثہ کو اگر اختیار اور اعتماد دے کر میدان میں اتارا جائے تو آج بھی ملکی ترقی کی رفتار قیام پاکستان کے فوری بعد ہونیوالی ترقی کے برابر لائی جا سکتی ہے جو اس وقت بھی بیوروکریسی کی مرہون منت تھی،تو نظام بدلنے کے تجربہ سے پہلے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کیساتھ سرکاری مشینری کو با اختیار کرنے کا تجربہ کر لیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔