11 جنوری کی صبح گرامی قدر اکمل شہزاد گھمن کا فون آیا، سلام دعا اور خیریت کے بعد کہا کہ سرمد صہبائی صاحب کو فون کرلیں۔ سرمد صہبائی صاحب کو فون کیا تو بولے شام کو کیا کررہے ہو؟ ، عرض کیا سر کچھ خاص نہیں حکم کریں، اچھا تو پھرشام کو ساڑے پانچ بجے تک گھر آجائو تمھیں ایک محفلِ موسیقی میں لے کر چلتے ہیں۔ میں اُن کے بتائے ہوئے وقت سے پندرہ منٹ تاخیر پر اُن کے گھر آ پہنچا۔ یہاں ایک دلچسپ اتفاق بتاتا چلوں کہ پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم کے والد جناب پروفیسر وقار عظیم اور سرمد صہبائی کے والد جناب اثر صہبائی گہرے دوست تھے اور لاہور میں اِن کے گھر بھی قریب قریب تھے۔اور اب اسلام آباد کے قریب ایک آبادی میں اختر وقار عظیم اور سرمد صہبائی کے گھر بھی آمنے سامنے ہیں۔ سفر کے آغاز پر انہوں نے بتایا کہ اکادمی ادبیات جانا ہے۔ دورانِ سفر طالب علم نے غالبؔ کے خطوط کے حوالے سے ایک منصوبے کا ذکر کیا جسے سرمد صہبائی صاحب نے پسند کیا اور کتابیں بھی تجویز فرمائی، اسی منصوبے کا ڈاکٹر پروفیسر معین الدین عقیل صاحب سے بھی ذکر کیا تو انہوں نے بھی پسند کیا اور قیمتی تجاویز بھی عنایت فرمائیں۔ اکادمی ادبیات پہنچے تو سیڑھیوں پر ہی چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے سرمد صاحب کو اپنے ادارے کی کارکردگی کا مختصر احوال بیان کیا۔ خیر قصہ مختصر اکادمی ادبیات میں کے ہال میں پہنچے تو وہاں گنتی کے آٹھ دس لوگ موجود تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ سرمد صاحب ہی نے سامعین کی تعداد محدود رکھنے کی ہدایت منتظمین کو پہلے ہی سے کر رکھی تھی۔ محفل کے فنکاروں میں معروف گلوکار استاد شوکت منظور (مرحوم) اور طبلہ نواز استاد اجمل خاں صاحب کے فرزندگان تھے۔ فنکاروں نے تین تین چارچار گیت اور غزل سُنا کر داد سمیٹی۔ اس دوران اچانک سرمد صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور ایک ایک لفافہ استاد شوکت منظور اور استاد اجمل خاں کے صاحبزادوں کو تھما کر اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گئے اور صرف اتنا بتایا کہ انھیں گزشتہ برس 23 مارچ کو صدرِ پاکستان کی جانب سے تمغہ حُسن کارکردگی ملا تھا ، جس کی رقم انہوں نے مرحومین کے صاحبزادوں میں مساوی تقسیم کردی ہے۔ سرمد صہبائی شاعری،موسیقی، ڈرامہ اور فلم میں اپنی تخلیقی اور فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں، اُن کی شخصیت کا یہ رُخ میرے لیے نیا تھا ۔ جس جذبے اورخاموشی سے انہوں نے موسیقی کے فنکاروں کی سرپرستی فرمائی وہ قابل تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی ہے اور اس سے سرمد صبہائی کی موسیقی کے ساتھ خصوصی دلچسپی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک شاعر اور تخلیق کار کی دلچسپی موسیقی کیوں نہ ہو؟ شاعری اور موسیقی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ایک شاعر الفاظ معنی کے اجزاء کو حُسنِ ترکیب کے ساتھ باہم جوڑتا ہے اور ایک موسیقار سُروں کو وزن اور تناسب کے ساتھ ترتیب دیتا ہے۔یہ بھی مشاہدہ ہے کہ موسیقی نے بعض شعراء کے کلام کو اُوجِ ثریا پر پہنچایا او ر وہ زبان زدِ خاص و عام ہوئے۔
موسیقی پر بات چلی ہے تو ذکر مولانا ابوالکلام آزاد کی غُبارِ خاطِرکے اس ایک خط کا ہوجائے جس میں وہ مکتوب اِلَیہ نواب صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی کو 16 ستمبر 1943 ء کو لکھتے ہیں کہ وہ زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتے ہیں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔لکھتے ہیں کہ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔آزادؔ مو سیقی کی طرف کیسے راغب ہوئے؟ 1905 ء میں جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو طلبہ کو پڑھانا شروع کیا۔کتابوں کے شوق میں اکثر ایک کتب فروش خدا بخش کے یہاں چلے جاتے۔ایک دن وہاں عالمگیری عہد کے ایک امیر اور ہندوستان کی موسیقی کے علم و عمل کے ماہر فقیر اللہ سیف خان کی راگ درپن کا خوش خط اور مصور نسخہ خدا بخش نے دکھایا جو سنسکرت کی ایک کتاب کا فارسی ترجمہ تھا جو راگ درپن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نسخے کو پڑھ کر آزادؔ کو موسیقی کا شوق ہوا۔ اُن کا زیادہ رجحان سِتار کی طرف رہا جس کی مشق وہ چار پانچ سال تک کرتے رہے۔ بین سے بھی اُن کی انگلیاں ناآشنا نہ تھیںلیکن اس سے زیادہ دل بستگی نہ ہوسکی۔ مگر یہاں وہ خود کو اُس مکھی کی بجائے کہ جو شہد پر اس طرح بیٹھتی ہے کہ پھر اُٹھ نہیں سکتی اُس بھنورے سے تشبیہ دیتے ہیں جو ہر پھول پر بیٹھے ، بُو باس لی اور اُڑ گئے۔ مگر موسیقی کا ذوق اور تاثر اُ ن کے دل میں آخری دم تک قائم رہا۔
مولانا آزادؔ کے ذوق کی وسعت ملاحظہ فرمائیں کہ انھیں صرف ہندوستان کی موسیقی ہی کی معلومات نہ تھیں بلکہ قدیم یونانی اور عربی موسیقی کے علاوہ یورپ میں جو موسیقی کا عروج ہوا اُس پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے مذکورہ خط میں کیا ہے۔آزادؔبتاتے ہیں کہ جس طرح قوموں کے عروج اور ترقی میں جو دلچسپیاں فکر کی آبیاری میں کردار ادا کرتی ہیں وہی زوال کے دور میں فکر کو زنگ آلود بھی کرتی ہیں۔ ایک ہی چیز حُسن استعمال اور اعتدالِ عمل سے فضل و کمال کا زیور ہوتی ہے اور سوء استعمال سے بد اخلاقی کا موجب۔ موسیقی کا ایک شوق شہنشاہ اکبر کو تھا کہ اپنی یلغاروں کے بعد کمر کھولتا اور مجلسِ سماع و نشاط سے تھکن مٹاتا۔ موسیقی کے شوق کی ایک قسم محمد شاہ رنگیلے کے یہاں ملتی ہے کہ جب تک محل کی عورتیں اسے دھکیل کر پردے سے باہر نہ کردیتیں دیوان خانہ میں قدم نہیں رکھتا تھا۔صفدر جنگ جب دیوان کی مہمات سے تھک جاتا، تو موسیقی کے باکمالوں کو باریاب کرتا ۔ اسی کی نسل میں واجد علی شاہ کا حال یہ تھا کہ جب طبلہ بجاتے بجاتے تھک جاتا تو تازہ دم ہونے کے لیے وزیر علی نقی کو باریابی کا موقع دیتا۔اِن مثالوں سے شوق کے حُسن استعمال اور سوئِ استعمال کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بات چلی تھی ایک محفلِ موسیقی میں شرکت سے اور مولانا آزادؔ کی غُبارِ خاطِر کے ایک خط سے ہوتی ہوئی ختم اِس پر کرتے ہیں :
پیار نہیں ہے سُر سے جس کو وہ مورکھ انسان نہیں ہے
یہ احسان ہے سات سُروںکا یہ دنیا ویران نہیں ہے