وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر احتساب کے حوالے سے بیان جاری کیا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بالکل ٹھیک ہے بدعنوانی بہت بری چیز ہے اس ایک برائی اور جرم سے کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں لہٰذا اس کے خلاف ہونا چاہیے عوام بھی یہی چاہتے ہیں اور اہل فکر و دانش بھی مگر سوال یہ ہے کہ اب جب ساڑھے تین برس ہو چکے ہیں اور موجودہ حکومت نے شروع دن سے کرپشن کو احتساب کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے تو برآمد کیا ہوا جواب ہو گا کچھ بھی نہیں۔ اس وقت بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن فروغ پذیر ہے اس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ رشوت اور کمیشن خوری کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ اس کا ادراک تمام ذمہ داران کو ہے مگر وہ اس رجحان کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں تو پھر یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک کرپشن کی صرف مخالفت کی جائے گی عملاً کرنا کچھ نہیں۔
کل تک خصوصی طور سے ایک شخص کو اس کام پر لگایا گیا اس نے بڑی بڑی باتیں کیں کہ یہ ہوجائے گا وہ ہو جائے گا تو پھر ہوا کیا۔ خود ہی صیاد اپنے دام میں آگیا۔ ہونا ہوانا کیا تھا لوگوں کو بیوقوف بنانا تھا سو خوب بنایا گیا احتساب احتساب کی گردان کر کے عوام کے دلوں کو دھڑکایا کیا کہ بس، اب احتساب کی ’’کڑکی‘‘ میں بڑے نام آرہے ہیں ان سے اتنا پیسا واپس آجائے گا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائی آسان ہو جائے گی مگر یہ خواب پو را نہ ہو سکا ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ کچھ ہوتا تو نتائج سامنے آتے۔
وزیراعظم سے درخواست ہے کہ احتساب کا رولا ڈال کر وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ محض مہنگائی ، نا انصافی، سینہ زوری قبضہ گیری ، رشوت اور بدعنوانی کی جو اخیر ہو چکی ہے سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے لہٰذا جذباتی نعروں سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش بے سود ہو گی۔ وہ حکمرانوں کی کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں وہ جانتے ہیں کہ گمبھیر صور ت حال کو ٹھیک کرنا موجودہ حکومت کے بس میں نہیں۔ ادھر اسٹیٹ بینک نے جو نئی ریگولیشنز جاری کی ہیں ان سے بقول یوسف کامران لگتا ہے کہ حکومت کے لیے بینکوں سے بھی قرض لینا آسان نہیں رہے گا۔ اس سے یہ
نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنی وہ شرائط بھی منوانا چاہتا ہے جو گزشتہ ادوار میں نہیں تسلیم کی گئیں۔ کیسے چلے گا یہ نظام معیشت اور زندگی کی گاڑی کیسے رواں رہے گی اس بارے ماہرین کو بہتر طور سے علم ہو گا۔ عمومی خیال یہی ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں نکڑے لگا چکا ہے اب اس کے ترلے منتیں کرنا ہوں گے کہ وہ ہمیں قرضہ دیتا رہے تا کہ روکھی سوکھی کا سلسلہ جاری رہ سکے۔
افسوس ہمارے حکمرانوں کو اس کی پروا نہیں ہو گی انہیں تو اقتدار سے پیار ہے انہوں نے تو اختیارات کے مزے لوٹنے ہیں سو وہ لوٹتے رہیں گے عوام جائیں بھاڑ میں۔ انہیں لولی پاپ دے کر خاموش کرایا جاتا رہے گا اور ان کی سادگی دیکھئے کہ وہ حکمرانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں بہ آسانی آجاتے ہیں۔ جیسا کہ انہیں احتساب کی رٹ سے یہ تاثر دیا گیا کہ اس سے معاملات حیات ٹھیک ہو جائیں گے جو سرمایہ بیرون ملک جا رہا ہے وہ رک جائے گا تو دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی مگر آج تک سوائے لق و دق صحرا کے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اب صدارتی نظام کی باتیں ہو رہی ہیں اگرچہ وہ باضابطہ حکومت کی طرف سے نہیں کی جا رہیں مگر قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ سب باقاعدہ ایک پروگرام کے تحت ہو رہا ہے اور اس کا تذکرہ کرنے والوں کو حکومتی آشیر باد حاصل ہے جو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے جتنی بھی خرابیاں دیکھنے میں آرہی ہیں سب اسی کی وجہ سے ہیں لہٰذا صدارتی نظام آتے ہی تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔ صدر کے پاس سب اختیارات ہوں گے وہ عوامی نمائندوں کی بلیک میلنگ سے محفوظ ہو گا لہٰذا تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر پوری طاقت سے عمل درآمد کیاجا سکے گا۔ کرپشن کو روکنے کے لیے اسے کسی کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔
اگر حکمران مخلص نہ ہوں عوام کے لیے دل میں دور نہ رکھتے ہوں تو کوئی نظام بھی کامیاب نہیں ہو سکتا فرض کیا صدارتی نظام آجاتا ہے تو صدر عوام کو روشن مستقبل نہیں دینا چاہتا تو پھر کیا ہو گا اسے تو کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا جو پوچھنے والے ہوں گے اس کے ’’بچے بچونگڑے‘‘ ہوں گے لہٰذا صدارتی نظام سے کیا حاصل ہو گا؟
یہاں تو تہتر کا آئین ہمیں بہت سے بنیادی حقوق دیتا ہے اگر اس پر من و عن عمل ہو جاتا ہے تو یہی پارلیمانی نظام جس میں کیڑے نکالے جا رہے ہیں سہانا لگے گا لہٰذا اصل بات ہے عوام کے دکھوں کو محسوس کرنے کی جنہیں حکمران نہیں کر رہے اگر کر بھی رہے ہوتے ہیں تو ان کو دیکھی ان دیکھی مشکلات و رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
جب تک تمام اہل اقتدار و اختیار یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ وہ بہر صورت عوام کو ان کے بنیادی حقوق دے کر رہیں گے تو چند ہفتوں کی بات ہے یہی لوگ ان کی طویل عمری کی دعائیں مانگ رہے ہوں گے مگر یہ وڈیرے سردار جاگیردار اور سرمایہ دار ایسا نہیں کرنا چاہتے لہٰذا لوگوں کو نئے نئے نعروں اور وعدوں کی بھول بھلیاں میں ڈال دیتے ہیں اور وہ ایک مدت تک ان سے بہلتے رہتے ہیں۔
صاحبو! سچ یہ ہے کہ جب تک عوامی جمہوری انقلاب نہیں لایا جاتا یہاں ہر ایک بڑا لوگوں کے جذبات سے کھیلتا رہے گا۔ ان کے محل ان کی جائیدادیں اور ان کی جاگیریں یونہی بڑھتی رہیں گی ان کے بچے پھر ان کے بچے حکمران بن کر ہم عوام پر مسلط ہوتے رہیں گے۔ کوئی احتساب کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر اپنی طرف متوجہ کرے گا تو کوئی بڑے بڑے منصوبے مکمل کر کے خود کو لوگوں کی نگاہوں میں آنیکی کوشش کرے گا مگر بنیادی حقوق کی جانب نہیں آئے گا کہ ان کو دینے سے اس کی حکمرانی کی گرفت ڈھیلی پڑنے کا اندیشہ ہو گا لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ ان حکمرانوں سے امیدیں وابستہ نہ کی جائیں کہ اب یہ بے بس ہیں کیونکہ جب آئی ایم ایف نے معیشت کو بالواسطہ اپنی تحویل میں لے لیا ہے تو کسی بہار کا کوئی امکان نہیں۔ یہ مایوسی نہیں حقیقت ہے ہاں اگر اس کے مقابل کوئی پروگرام حکومت رکھتی ہے تو اسے سامنے لائے اور یہ یقین دہانی کرائے کہ اس پر کسی مالیاتی ادارے کا ذرا سا بھی سایہ نہیں پڑے گا۔
حرف آخر یہ کہ موجودہ حکومت نے جو خواب دکھائے‘ انہیں وہ پورا کرنے سے قاصر رہی ان کی جگہ وہ حزب اختلاف کو برا بھلا کہہ کر وقت پاس کرتی رہی مگر وہ سب بھی ایک خواب تھا جو پورا نہیں ہوا ہوتا بھی کیسے کہ حقائق اس کے برعکس تھے لہٰذا اب جناب وزیراعظم ہاتھ جھاڑ کر دکھا رہے ہیں اور زندگی کے اِن اذیت ناک لمحوں سے متعلق کوئی منصوبہ اور کوئی حل نہیں پیش کر رہے۔
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں!