خطرناک

08:47 AM, 27 Jan, 2022

نیوویب ڈیسک

جب حکمران اپنے دفتر میں بیٹھ کر تماشہ دیکھنے لگتا ہے تو وہ خطرناک ضرور ہوجاتا ہے ۔برسوں دفتر کے ایک کونے میں کرسی پر بیٹھ کر تماشا دیکھنا کو ئی آسان کام نہیں ۔لیکن ایک لمحے کے لئے یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ ملک کا حکمران اتنا بے بس کیوں ہوجاتا ہے کہ ان کاکام صرف دفتر میں بیٹھ کر ڈرامے اور تماشے دیکھنا رہ جاتا ہے ؟حقیقت یہی ہے کہ جب بھی کوئی حکمران اقتدار کی راہداریوں میں چور دروازے سے داخل ہو تا ہے تو پھر اس کا مقدر دفتر کے ایک کونے میں بیٹھ میں کرتماشا ہی دیکھنا ہوتا ہے ،اس لئے کہ جس نے بھی ان کو چور دروازے سے اقتدار کے محل میں داخل کیا ہوتا ہے ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں ۔ جب تک وہ اپنے مقاصد حا صل نہیں کرتے اسی وقت تک چور دروازے سے لائے گئے حکمران کے فرائض منصبی تماشے دیکھنا ہی ہوتا ہے ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ یہی حکمران بھی دفتر میں بیٹھ کر تماشے دیکھنے اور سرکاری مراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ اس بات پر بھی خوش ہوتا ہے کہ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس میں فریم میں ان کی تصویر بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گی ۔لیکن جب اقتدار میں موجو د حکمران کو اس ڈرامے اورتماشے میں قبل ازوقت اپنا سفینہ ڈوبتے نظر آتا ہے تو پھر یہ دھمکیاں دینے لگتا ہے ۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالا کرتا ہے ۔اپنی کارکردگی کی بجائے دوسروں کی خامیاں قوم کے سامنے رکھتا ہے ۔اپنے محسنوں کا نام لئے بغیر ان کو دھمکیاں دیتا ہے ۔
ابھی چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے یہی دھمکی دی ہے کہ اگر اقتدار سے نکالاگیاتو اور خطرنا ک ہو جائوں گا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حزب 
اختلاف میں شامل جماعتوں میں کوئی دم خم نہیں کہ ان کو اقتدار سے الگ کر دیں ۔ حزب اختلاف کی سب بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) سڑکوں پر احتجاج کرکے اس حکومت کو برطرف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔ان کی اب بھی یہی کوشش ہے کہ قومی انتخابات سے قبل میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی جائے ۔ ان کا مقصد اس وقت حکومت کو گرانا نہیں ۔عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہرگز ان کا مقصد نہیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ انتخابات جب بھی ہوں اس سے قبل میاں نواز شریف کو ملک آنے کی اجازت دی جائے ۔ان پر قائم مقدمات ختم ہو ں۔ ان کی سزا کو ختم کیا جائے اور ان کو انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے ۔حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی بھی سندھ حکومت کو بچانے کی جنگ لڑ رہی ہے ۔وہ بھی اس بات پر راضی ہیں کہ سندھ میں ان کی حکومت کو نہ چھیڑا جائے ۔پیپلز پارٹی بھی اگلی باری کے لئے پس پردہ ان قوتوں سے رابطے میں ہے جن کے بارے میں ان کو یقین ہے کہ اگر وہ ساتھ دیں تو آنے والے انتخابات میں فتح انہی کا مقدرہے ۔اس لئے پیپلز پارٹی بھی قبل ازوقت عمران خان کو حکومت سے ہٹانے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے ۔رہی بات مولانا فضل الرحمان کی تو ایک مرتبہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرکے ایک ناکام تجربہ کر چکے ہیں اس لئے وہ دوسری مرتبہ یہ حماقت ہر گز نہیں کریں گے ۔خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مر حلے میں ان کی جماعت نے جو کامیابی حاصل کی ہے اس سے انھوں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ قومی انتخابات میں ان کو ان کا حصہ مل جائے گا۔رہی جماعت اسلامی تو اقتدار کی راہداریوں سے وہ باہر ہے ۔لہو گرم رکھنے کے لئے وہ اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ ضرور کریں گے لیکن اتنا زور وہ ہرگز نہیں لگائیں گے کہ عمران خان کی حکومت قبل ازوقت ختم ہو ۔
جب یہ بات بالکل واضح ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو حزب اختلاف سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر انھوں نے یہ دھمکی کیوں دی کہ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو زیادہ خطر ناک ہوجائوں گا ؟کیوں کے ساتھ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بھی ضروری ہے کہ اگر انھوں نے یہ دھمکی حزب اختلاف کو نہیں دی ہے تو پھر ان کے مخاطب کون ہیں ؟وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کی صورت میں زیادہ خطرناک ہونے کی دھمکی ان قوتوں کو دی ہے جنھوں نے ان کو اقتدار میں لانے کا معجزہ کر دکھایا ہے ۔دھمکی دی کیوں ہے ؟ اس لئے کہ لانے والے اب بھی ان کی پشت پر ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کو دفتر میں بیٹھ کر کئی برس تماشہ دیکھنے کے بعد اب احساس ہوا ہے کہ مقتدر قوتوں نے ان کو استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ان کو احساس ہو گیا ہے کہ مقتدر قوتوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں ۔ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات میں شکست ایک دوسرا اشارہ ہے ۔ اس سے قبل پورے ملک میں کینٹ بورڈ الیکشن میں بھی وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔آخری معرکہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہونگے جس میں وزیراعظم عمران خان کو بغیر کسی شک و شہبے کے معلوم ہو جائے گا کہ اگلی باری کس کی ہے ۔پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کا سبق یہی ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت ایک مرتبہ پھر تانگہ پارٹی بن جائے گی ۔ وہی گنتی کی چند سواریاں ۔وہ خو د اگر ملک میں رہیں گے تو مقدمات کا سامنا کریں گے ورنہ باقی زندگی دیار غیر میں ہی گزارے گا۔

مزیدخبریں