اسلام آباد: پاناما کیس اہم موڑ میں داخل ہو گیا۔ پانچ رکنی بینچ نے نیب سے نواز شریف اور اسحاق ڈار کیخلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں۔ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اعترافی بیان کے باوجود اسحاق ڈار کو سترہ ماہ زیر حراست رکھا گیا۔ اسحاق ڈار سے اعترافی بیان پر زبردستی دستخط کرائے گئے جبکہ وہ اس بیان کی کئی بار تردید بھی کر چکے ہیں۔
اسحاق ڈار کو پہلے معافی مل گئی تھی جبکہ اعترافی بیان بعد میں ریکارڈ ہوا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ پہلے اسحاق ڈار کو معافی دی گئی جس کے بعد اعترافی بیان ریکارڈ کرایا گیا۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس اعترافی بیان کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اگر معافی پہلے دی گئی ہو اور پھر بیان ریکارڈ ہوا تو ملزم گواہ بن جاتا ہے۔ عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ سوموار تک یہ بتایا جائے کہ اسحاق ڈار کو مشروط یا غیر مشروط معافی نامہ دیا گیا۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کیس میں صرف چالان ختم ہوا۔ ایف آئی آر آج بھی موجود ہے۔ ملزمان بری ہو گئے یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو بھی عدالتی معاونت کے لیے بلا لیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے استدعا کی کہ انہیں وراثتی جائیداد کی تقسیم اور تحائف کی تفصیلات جع کرانے کیلئے پیر تک مہلت دی جائے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ پہلے کہا گیا کہ تمام دستاویزات موجود ہیں طلب کرنے پر پیش کر دی جائیں گی۔ تاہم عدالت نے انہیں پیر تک مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔