اسلام آباد : پنجاب اور خیبر پختونخوا از خود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ ہر جج کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی بنچ میں بیٹھ کر مقدمات سنے ۔ کوئی جج اس وقت خود کو الگ کر سکتا ہے جب اسکی بنچ سے علیحدگی کی قانونی وجوہات ہوں ۔ ان وجوہات کے سبب میں خود کو بنچ سے الگ نہیں کر رہا ۔
جسٹس منصور نے لکھا کہ میرے ازخود نوٹس لیے جانے پر تحفظات ہیں لیکن پھر بھی میں بنچ میں بیٹھ کر کیس سنوں گا۔ اگر آج میں خاموش رہا تو اسے میری غیر موجودگی سمجھا جائے گا ۔ جن دو جج صاحبان نے ایک پولیس کے تبادلہ کیس ازخودنوٹس لینے کی سفارش کی انھوں نے غیر ضروری معاملے میں دلچسپی ظاہر کی ۔
انہوں نے لکھا کہ آڈیو لیک کے بعد عام عوام میں تنازع کھڑا ہوا ۔آڈیو بنچ میں موجود ایک جج سے بھی متعلقہ ہے۔ ایک جج کی آڈیو سے متعلق عدالت کے اندر اور باہر آواز اٹھی لیکن نہ ہی سپریم کورٹ نے کوئی جواب دیا اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے الزامات کا جواب آیا ۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خبر بھی شائع ہوئی پاکستان بار کونسلز نے ایک جج کیخلاف جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جج پر لگائے گئے ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ ایسے جج جس پر الزام ہے اسے بنچ میں شامل کرنا نامناسب ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب دیگر سینئر جج صاحبان کو بنچ میں شامل نہ کیا جائے ۔ دو جج صاحبان اپنی واضح رائے دے چکے ہیں اس لیے انھیں شامل نہیں ہونا چاہیے ۔ عدلیہ کی اصل طاقت عوام کا اعتماد ہے۔ عدالتی کی غیر جانبداری اور شفافیت ایسی ہونی چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔