اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا از خود نوٹس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں تین اہم سوال اٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے، چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھےگئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اورمعاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔