'پورا پاکستان غمزدہ ہے، نورین رو رہی ہے'

سوشل میڈیا ٹرینڈ نورین رو رہی ہے کے پیچھے کیا ہے؟

'پورا پاکستان غمزدہ ہے، نورین رو رہی ہے'
سورس: file

لاہور:  سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس وقت "نورین رورہی ہے" کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ اب تک لاکھوں افراد  "نورین رو رہی ہے" کے ہیش ٹیگ کیساتھ پوسٹ کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر پی ٹی آئی کے حامی ہیں۔


تفصیلات کے مطابق نجی چینل کے پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے صحافی حسن ایوب خان نے  کہا کہ نورین فاروق خان رورہی ہے کہ میں1999 سے پی ٹی آئی کا حصہ ہوں جو شخص 2020 میں پارٹی میں شامل ہورہا ہے اسے پارٹی کا چیئرمین بنانے کا عمران خان کا فیصلہ غلط تھا۔

میزبان خاور گھمن نے سوال کیا کہ اب نورین کیا چاہتی ہیں؟ جس پر حسن ایوب خان نے کہا نورین کا موقف ہے کہ بوگس الیکشن کرا دیئے ہیں وہ  پارٹی میں صاف و شفاف انتخابات چاہتی ہیں، وہ ہمیشہ سے انٹرپارٹی انتخابات کی حامی رہی ہیں۔

جس پر خاور گھمن نے سوال کیا کہ وہ بلا کیوں مانگ رہی ہیں جس پر حسن ایوب کا کہنا تھا کہ نورین نے بلے کا نشان نہیں مانگا، نورین تو آج بھی پی ٹی آئی اور عمران خان کیلئے روتی ہے۔


 

حسن ایوب خان کی اس گفتگو کے بعد ایکس پر نورین رورہی ہے کا ہیش ٹیگ سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگا۔

صحافی صدیق جان کا ایکس پر کہنا ہے کہ پورا پاکستان غمزدہ ہے کیونکہ نورین رو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان کو لگ رہا ہےکہ صرف نورین رہی ہیں پر  لیکن ابھی ٹی وی چینلز پر دیکھا تو معلوم ہو ا کہ نورین کے بھائی بھی رو رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ  ہائے اللہ! غم، دکھ،تکلیف اور اذیت کا دائرہ کار بڑھتا چلا جارہا ہے۔

 

نوشین پیروانی نے کہا کہ نورین کا مذاق نہ اڑیا جائے بلکہ اس سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے کیونکہ نورین تو رورہی ہے۔

صحافی خرم اقبال نے کہا کہ نورین رورہی ہے، راوی بہہ رہا ہے، چین بے چین ہے، کیونکہ یہ سب بلے کی کارستانی ہے، بلے کی خیر ہو۔

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حیدر علی نے کہا کہ جو نورین حسن ایوب کے بقول رورہی ہے اور انہیں پی ٹی آئی اتنی ہی عزیز تھی تو یہ ق لیگ میں کیا کررہی ہے؟

احمد وڑائچ نے شاعرانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ نورین کی محبت میں ہم کرشمہ سازوں نے وہ فیصلے بھی سنائے ہیں جو مناسب نہیں تھے۔

صحافی حسن ایوب کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والوں کو پارٹی کا حصہ نہ ہونے کا عدالت میں بیرسٹر علی ظفر کا دعوی مکمل غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ نورین فاروق خان 1999 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2003 میں تحریک انصاف ویمن ونگ کی صدر منتخب ہوئی جبکہ2005 میں PTI سندھ ویمن ونگ کی صدر رہی ہیں ۔2009 سے تحریک انصاف کے لیبر ونگ کا حصہ ہیں ۔ سال 2020 سے تحریک انصاف لیبر ونگ کی انفارمیشن سیکٹری کے عہدے پر فائز ہیں ۔
 

نورین فاروق خان کون ہیں؟
زیر بحث نورین فاروق خان پنجاب میں پی ٹی آئی کی سابق سیکرٹری ہیں۔ مبینہ طور پر انہوں نے 12 مارچ 2023 کو پی ٹی آئی چھوڑ دی اور چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ میں چوہدری غلام سرور کو یہ اعلان کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے پی ایم ایل کیو میں شامل ہونے والے سیاسی کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے متعدد حامیوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی سے ان کی وفاداری پر سوال اٹھائے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما اظہر مشہوانی نے مسلم لیگ ق کی قیادت کی ایک پریس کانفرنس کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نورین تو ق لیگ میں شامل ہوگئی تھیں۔ 

فیصل بھٹی نے مسلم لیگ ق کی خواتین کی ایک تصویر شیئر کی جس میں نورین فاروق خان کو بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ نورین فاروق خان نےپی ٹی آئی کے انٹرپارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا تھا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے چیلنج کرنے والوں کا پی ٹی آئی کا حصہ نہ ہونے کا دعویٰ کیا، پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نورین فاروق خان پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئی تھیں جس کی ویڈیو و تصاویری ثبوت بھی موجود ہیں۔

تاہم نورین فاروق خان نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ وہ 1999 سے 2024 تک پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ حسن ایوب نے کچھ غلط نہیں کہا انہوں نے جو بھی کہا سچ کہا ہے اور میرا نقطہ نظر پیش کیا ہے اور وہ ان کی مذمت نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا میرے بارےمیں غلط پراپیگینڈا نہ پھیلایا جائے جس کو بات کرنی ہے میرے سے ذاتی طور پر کرے مجھ پر الزام نہ لگایا جائے۔ 

دوسری جانب صحافی ثاقب علی راٹھور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نورین فارق کا ایک کلپ شیئر کیا جس میں نورین فارق کا کہنا تھا کہ میں پی ٹی آئی کی طرف سے یو سی 50 کی کونسلر تھی، 1999 سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں، کراچی، ویمن وینگ اور پاکستان کے لیبر وینگ کی پریزڈینٹ رہ چکی ہوں۔ ان کا کہنا تھا میرا دل تھا کہ میں انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لوں۔  انہوں نے کہا کہ ایسے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہوتے کہ ایک دن پہلے بتایا جائے اور کسی کو  کاغذات نامزدگی  دیے اور نہ حصہ لینے کی اجازت دی۔  انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان نے پارٹی کا عہدہ کسی وکیل کو دینا ہی تھا تو حامد خان اچھی آپشن تھے۔ 

مصنف کے بارے میں