کیا سیاستدان ناکام ہو رہے ہیں اور کیا جمہوریت اس ملک کے لیے ایک موزوں حکومتی نظام نہیں ہے؟ یہ سوالات اس لیے بھی اٹھانا ضروری ہیں کہ ہم جان سکیں کہ اس ملک پر حق حکمرانی کس کو حاصل ہے۔ موجودہ جمہوری نظام عوام کو پھل پھول دینے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے اور اس کی وجہ اس نظام کو مکمل طور پر قبول نہ کرنا ہے۔ ووٹ کے تقدس اور عوامی حکمرانی کے تصور کو دھندلا کر دیں تو وہ قوتیں زیادہ طاقتور ہو جاتی ہیں جو نظام کو اپنی مرضی کے تابع رکھنا چاہتی ہیں۔ اس ملک میں اب بھی ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کو حب الوطنی کی سان پر تیز کیا جاتا ہے اور وہ عقل اور شعور کی کسی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم کا یوم ولادت گزر گیا لیکن کیا یہ وہی پاکستان ہے جو وہ ہمیں دے کر گئے تھے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں۔ کیا وہ اس قسم کی جمہوریت لانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ جمہوریت کو اس طرح یرغمال بنالیا جائے گا۔ ملک عزیز میں جو تجربات کیے جارہے ہیں اس سے ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جا رہا ہے۔ ہم سے الگ ہو کر نیا ملک بننے والا بنگلہ دیش ترقی میں ہم سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے اور ہم قرضوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ہم جتنا اوپر کی طرف زور لگا رہے ہیں اتنا ہی نیچے جا رہے ہیں۔
پاکستان نے اسی نظام کی کوکھ سے جنم لیا تھا جہاں سے بھارت معرض وجود میں آیا کل تک ہم بھارت کا مقابلہ کر رہے تھے آج بھارت ہم سے کوسوں آگے ہے۔ اس کی معاشی ترقی کی رفتار ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کا حجم ہم سے کئی گنا بڑا ہے اور آبادی جو اس کے لیے ایک بڑا بوجھ تھی اس نے اسے طاقت میں بدل دیا۔ چین نے بھی اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل دیا۔ چین اور بھارت دونوں خوراک میں خود کفیل ہیں اور ہم سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں باہر ہو جاتے ہیں اور پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سر باہر رہ جاتا ہے۔
تحریک انصاف نے عوام کو تبدیلی کے خواب دکھائے تھے مگر ان کی تعبیر اس کے پاس نہیں ہے۔ جو تبدیلی کے دھن پر رقص کرتے تھے وہ اب ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ جو نعرے لگاتے تھے وہ شرمندگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ صفر جمع صفر کا جواب آپ کے سامنے ہے۔ خیبرپختونخوا میں عوام نے اپنا غصہ بلدیاتی انتخابات میں ظاہر کر دیا۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف مسلسل دوسری بار حکومت میں ہے۔ تبدیلی خان نے اپنی کارکردگی کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ تنظیمی ڈھانچے پر گرا دیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ تحریک انصاف میں سے کسی نے یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ عوام نے آپ کو مسترد کر دیا ہے۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں کیا ہو گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ خود تحریک انصاف کے اندر سے یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو یہاں بھی پارٹی کا صفایا ہو جائے گا۔ ماضی میں جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اس سے عوام کے مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے سامنے جس طرح سرنڈر کیا گیا اس کے خوفناک نتائج کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ عوام کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے ووٹ کی پرچی۔ لوگ بجلی کے بل دیکھ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پٹرول کی قیمت کو آگ لگ چکی ہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری جس کے بارے میں وزیراعظم کہتے تھے کہ وہ اس کو ترقی دے رہے ہیں وہ بند پڑی ہے کہ لوگوں کے پاس سریا اور سیمنٹ خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ حکومت اناج سستا کرنے کا بجائے لنگر کھانے بنانے میں زیادہ سنجیدہ ہے۔ شاید ان کے جو گرو ہیں ان کو لنگر خانے بنانے کا زیادہ تجربہ ہے۔ پھبتی کسنے والوں کا بیڑا غرق ہو کہ وہ اس تاثر کو ہوا دے رہے ہیں کہ جس نے ساری عمر گھر کا بجٹ نہیں بنایا آپ اس سے کیا توقع رکھیں گے۔
2018 میں جب عمران خان نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا وہ ان کی سیاسی ترقی کی معراج تھی اس کے بعد سے ان کا ڈاؤن فال شروع ہو چکا ہے۔ ہر گزرتا دن تبدیلی کے دعویداروں کو یہ باور کراتا ہے کہ ان کا انتخاب غلط تھا۔ بنجر زمینیں آباد ہو سکتی ہیں مگر یہاں یہ معجزہ ہونے سے رہا۔ جو ان کو تھپکی دے رہے ہیں وہ ذرا سا پیچھے ہٹ جائیں پھر دیکھیں یہ نظام کتنے دن چلتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ خود وزیراعظم اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو ملک میں لانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ انہیں چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی باتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ اک ذرا سی غلطی سے بنا بنایا کھیل خراب ہو جاتا ہے، ایک کیچ چھوڑنے سے سارا میچ ہاتھ سے چلا جاتا ہے اور یہ غلطی عمران خان کر چکے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے مگر بٹھانے والوں کو بھی علم ہو گیا ہے کہ حد سے زیادہ اعتماد ٹھیس بھی پہنچا سکتا ہے۔
کل تک نواز شریف کو جو لوگ مطعون کرتے تھے آج ان کی سیاسی بصیرت کے مداح بن گئے ہیں۔ خواجہ آصف نے ایک بار اسمبلی میں کہا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔آپ نے اعتزاز احسن کی نواز شریف کے بارے میں گفتگو سنی ہے؟ نہیں سنی تو ضرور سنیں۔
ایک کہاوت ہے کہ بے وقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہوتا ہے۔ حکومت اس تاثر کو مضبوط کر رہی ہے کہ کچھ حلقے نواز شریف سے مفاہمت کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں اور ان کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اس تاثر کے بعد وہ پنچھی اڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں جو دانا چگنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی تنظیم توڑ کر عمران خان نے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے ٹکٹ تقسیم کیے تھے وہی دوبارہ سے تنظیم سازی کے لیے مقرر ہوئے ہیں۔ کچھ چھوٹے اخبارات اور میڈیا ہاؤسز سال دو سال بعد اپنے نمائندوں کو فارغ کر کے نئے نمائندگان کی بھرتی کا اشتہار دیتے ہیں تاکہ آنے والوں سے بھی سکیورٹی کی مد میں رقم بنائی جا سکے کہیں تحریک انصاف اس اصول کو اپنانے کی کوشش تو نہیں کر رہی۔ تحریک انصاف کے ہر الیکشن میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے ٹکٹ بیچے جاتے ہیں اور ہر بار کسی نہ کسی پر الزام دھر دیا جاتا ہے۔ غیب کے حال تو رب جانتا ہے مگر یہ تاثر عام ہو رہا ہے۔ پنجاب کو اسلام آباد سے چلانے کے تجربات کا پھل کاٹنے کا موسم سر پر آ گیا ہے۔ جو بیج بوئے تھے اب اس کی فصل کاٹتے کی تیاری کریں۔
عمران خان عوام پر توجہ دیں تو شاید ان کے لیے حالات درست ہو جائیں مگر عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل پر آپ عوامی نمائندگی کا دعوی نہیں کر سکتے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نواز شریف سے ڈیل کی خبروں کو ہوا دے کر آپ سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی تیاری کی جا رہی ہو۔ کہیں آپ کو بے دست و پا بنا کر آپ کے کردار کو ظل سبحانی میں ڈھالنے کی کوشش ہو رہی ہو۔ سیاست میں حکومت بھی ملتی ہے اور اپوزیشن کے بنچوں پر بھی جانا پڑتا ہے مگر اس اعتماد اور وقار سے سیاست کریں کہ کل کو آپ کا نام احترام سے لیا جائے۔ ویسے ایک بات میں آپ کو پورے یقین سے بتا سکتا ہوں کہ نواز شریف کسی بھی طرح اسٹیبلشمنٹ سے معاہدہ کر کے واپس آنے کو ترجیح نہیں دے گا اور خاص طور پر ان حالات میں۔ اس لیے میرے پیارے وزیراعظم خوفزدہ نہ ہوں۔عوام کو سکھ دینے کے لیے کام کریں کہ آخر ایک دن سب کو لوٹ کر جانا ہے اور یہی نظام قدرت ہے۔