1869 کو کثرت مے نوشی کے باعث انکی حالت زیادہ بگڑ گئی اور وہ 15 فروری 1869کو انتقال کرگئے
کراچی: اپنی شاعری میں رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج پیش کرنے والے مرزا اسد اللہ خان غالب اگر آج زندہ ہوتے تو اپنی 219 ویں سالگری منارہے ہوتے۔
منفرد اسلوب کے حامل اردوزبان کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک اسداللہ خان المعروف مرزا غالب کا 219 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔ مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔ 1810 میں 13 سال کی عمرمیں ان کی شادی امراء بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انھوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔
غالب شروع میں وہ فارسی اورمشکل اردوزبان میں شاعری کرتے تھے اوراس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انھوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اوراسے ایسی آسان زبان، تخیل اورفلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اورشاعران کے مدمقابل نظرنہیں آتا۔
غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔ غالب پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری کو ذہن عطا کیا، غالب سے پہلے کی اردو شاعری دل و نگاہ کے معاملات تک محدود تھی، غالب نے اس میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے دوآتشہ کردیا۔
غالب کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بڑی وسعت دی ہے جہاں ان کی شاعری میں غالب کی شاعری، رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج نظرآتا ہے۔ غالب 15 فروری 1869 کو دلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔