جب لوگ تخت والوں سے بیزار ہو جاتے ہیں تو اُن سے جان چھڑانے کے روایتی طریقے ہوتے ہیں۔ اِن میں حکمرانوں کی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی عدم اعتماد کی لاٹھی سے حکمرانوں کو بھگا دینا یا مدتِ ملازمت ختم ہو جانے کے بعد نئے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اُن پر لعنت بھیجنا شامل ہے۔ اسے مہذب لوگ جمہوری طریقہ کہتے ہیں جبکہ مزاجاً غیرجمہوری حکمرانوں کو جمہوریت کی عزت سے کھیلنے سے روکنے کے لیے غیرجمہوری طریقہ بھی بروئے کار لایا جاتا ہے جس میں طاقت کے سوار اچانک نمودار ہوکر حکمرانوں کو محلوں سے نکال کر کوٹھڑیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ اِس طرح تبدیلی کے بعد لوگ اپنے مسائل میں کچھ ریلیف محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں نے بھی نئی دنیا میں حکمرانوں کی تبدیلی کے اِن دونوں طریقوں کے اکثر مزے لیے ہیں یعنی جمہوریت کا مزا اور مارشل لاء کا کرارا مزا۔ اِس وقت ملک میں لوگوں کے لیے لوگوں کی حکومت قائم ہے جو اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی کو عدم اعتماد کی لاٹھی سے باہر ہانک کر آئی۔ آئین بھی ہے اور سب سیاسی جماعتیں اِسی کے تحت جمہوریت کی ٹرین میں اپنی اپنی سیٹیں چاہتی ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ جن گھروں میں اکثر چولہا نہیں جلتا وہاں مسلسل میڈیا چلتا ہے جس کی بنا پر معلومات کی فراہمی اور شعور کی بڑوہت میں دن دُگنی رات چُوگنی ترقی جاری ہے۔ تازہ حالات میں باوقار، غیرجانبدار اور بیشتر لوگوں کا اعتماد رکھنے والی عدلیہ بھی ہے جسے لوگوں نے میڈیا کی چیخ و پکار، وکیلوں کی قیادت اور سیاست دانوں کے شملوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر جاکر حاصل کیا تھا۔ اس پوری بات کو کل ملاکر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں حسبِ توفیق جمہوریت بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انصاف پسند، خوددار، غیرجانبدار
عدلیہ اور بہادر میڈیا بھی موجود ہے۔ فوج اپنے کاموں میں مصروف ہے۔ عام لوگوں کے لیے اچھے معاشرے کی تفسیر بیان کرنے والے اِن حالات کو عوام کے لیے بہتر حالات کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستانی بہتر سے مختلف حالات سے دوچار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس پر بے پناہ لکھا، بولا اور سنا جارہا ہے مگر اختیار والے ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ شاید اس لیے کہ جلدی انتخابات ہونے کا اُنہیں ڈر نہیں ہے۔ شاید اس لیے کہ حکمرانوں کو یقین ہوچلا ہے کہ اگلے برس میں لوگ انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ دوسری طرف حکمرانی کی امیدوار پی ٹی آئی اپنی اپوزیشن والی مدت کو الیکشن کیمپین کی طرح گزار رہی ہے جبکہ الیکشن کیمپین کے لیے چند ہفتے دیئے جاتے ہیں۔ تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ اگر انتخابات ہوں تو حسبِ روایت اپوزیشن والے آگے آجائیں گے۔ کیا وہ موجودہ حکمرانوں سے مختلف کام کرپائیں گے؟ اگر نہیں تو پھر انتخابات کا کیا فائدہ؟ اور اگر موجودہ حکومت اگلے برس تک اپنی آئینی مدت مکمل کرے اور نئے انتخابات میں اگر امید کی جائے کہ اپوزیشن حکومت بنائے گی توکیا وہ لوگوں کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرپائے گی؟ یا اُس وقت نئی بننے والی اپوزیشن آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے لیے ایک نئی الیکشن کیمپین میں جُت جائے گی؟ عدلیہ میرٹ پر ایسے بڑے بڑے مقدمے سن رہی ہے جو یقینا ملکوں کی تاریخ میں بڑے اہم ہوتے ہیں لیکن عام لوگ ابھی براہِ راست ریلیف سے دور ہیں اور وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کررہے ہیں کہ ابھی کتنا وقت لگے گا؟ کورٹ کے بار رومز میں جمہوری قوتوں کا جیتنا کیا اس بات کی یقین دہانی ہے کہ وہ آئین کی غیرجمہوری شقوں کو آئین سے نکلوا پائیں گی جن کے خلاف وہ آواز بلند کرتی رہی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کورٹ بار رومز میں جمہوری اور دیگر میں کیا کوئی فرق رہے گا؟ مندرجہ بالا صورتحال میں لوگ کیا کریں؟ سڑکوں پر نکلیں تو کس کے لیے؟ نئے الیکشن میں ووٹ ڈالیں تو کن کے لیے؟ مارشل لاء کی دعائیں مانگیں تو کیوں؟ نہ مانگیں تو کیوں؟ وہ حکومت بنانے کے اِن طریقوں میں گزشتہ سات دہائیوں سے شٹل بنے ہوئے ہیں حالانکہ دنیا میں حکمرانی کے یہی دو تین طریقے رائج ہیں۔ تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ باقی دنیا میں جن طریقوں کے ذریعے حکمرانی کرکے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کیا جارہا ہے وہی طریقے ہمارے ہاں لوگوں کو پستی میں کیوں لے جارہے ہیں؟ ہوسکتا ہے حکمرانی کے اِن طریقوں میں ابتدا سے ہی کسی گندگی کی ملاوٹ ہوگئی ہو جس سے ہمارے ہاں ہرنظام حکومت ناکام ہورہا ہے۔ جیسے ایک مرتبہ کسی کنویں میں گندہ جانور گرکر مرگیا۔ لوگوں نے ایک سیانے سے کنویں سے بدبو آنے کی شکایت کی تو سیانے نے انہیں گُر بتایا کہ چالیس روز تک کنویں کاپانی نکال کر پھینکتے رہو۔ چالیس روز بعد جب گائوں کے لوگوں نے کنویں کے پانی کا جائزہ لیا تو اُس میں بدبو تاحال موجود تھی۔ وہ پھر سیانے کے پاس گئے۔ اُس نے کہا کہ مزید چالیس روز تک پانی نکالتے رہو۔ مدت ختم ہونے کے بعد جب لوگوں نے کنویں کا پانی پینا چاہا تو وہی پرانی صورتحال تھی۔ اس مرتبہ جب وہ سیانے کے پاس گئے تو سیانے کو اچانک خیال آیا اور اُس نے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے کنویں میں سے گندہ جانور نکالا ہے؟ جس پر لوگوں نے جواب دیا، نہیں! ہم تو صرف پانی نکالتے رہے ہیں۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہمیں حکومتیں بدلنے سے پہلے غور کرکے جمہوریت اور آئین میں ایسے خلا پُر کرنا ہوں گے جو سب کوششوں کو ناکامی میں بدل دیتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، جمہوریت آتی ہے اور جاتی ہے، مارشل لاء آتا ہے اور اٹھتا ہے لیکن پاکستانی عوام ریلوے لائن کے ساتھ نصب ایک سگنل کی مانند ہیں جو اپنے اشارے سے بے شمار ریل گاڑیاں گزار چکا ہے مگر خود کھلے آسمان تلے سردی گرمی میں اُسی جگہ پر کھڑا ہے۔