پنجاب کے علاقہ فیصل آباد میں پیدا ہونے والے عام گھرانے سے وابستہ چودھری محمد سرور نے 1976 میں پاکستان سے سکاٹ لینڈ کا رخ کیا۔ وہاں پر ممبر پارلیمنٹ بنے، کاروباری، سیاسی اور سماجی حلقوں میں اپنی پہچان بنائی، نام کمایا اور وطن عزیز کے ضرب المثل عہدہ پر بھی دو بار گورنر پنجاب تعینات کیے گئے۔ اب ان کے نام کے ساتھ گورنر کا سابقہ ایسا جڑا ہے کہ گورنر کہے بغیر ان کی پہچان نہیں ہو پاتی۔ خصوصی ملاقات ہمدم دیرینہ نعم حنیف اینکر پرسن سما ٹی وی، محترمہ ربیعہ ضیا کی وساطت سے ہوئی، سہیل وڑائچ بھی تھے، چودھری محمد سرور کو میں نے انتہائی محب وطن، خوش اخلاق، عاجز، خوش گفتار اور سچا انسان پایا حیرت بھی ہوئی کہ اس شخص نے عمران نیازی کو چھوڑنے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ چودھری صاحب اوورسیز پاکستانیوں اور بیرونی ممالک میں ایک حیثیت رکھتے اور وطن عزیز میں فلاحی کام کرتے ہیں۔ یہ دو باتیں عمران خان کے لیے کافی تھیں کہ وہ گورنر محمد سرور کو بے اثر رکھتے، چودھری صاحب کے مزاج اور نیازی صاحب کی فطرت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میرے خیال سے انہوں نے گورنری نہیں کی بیگار کاٹی تھی۔ چودھری محمد سرور کو گورنری کے عہدے کے دوران بہت سے اوورسیز پاکستانی اپنے دکھ سکھ سناتے تھے گورنری کے دور سے لے کر اب تک چودھری سرور اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کیلئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔ سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے گرینڈ اوورسیز کلب کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے ہمہ وقت حاضر ہونا ہے۔ چودھری سرور نے اوورسیز پاکستانیوں کی اربوں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضے ختم کرا کے ہزاروں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسئلہ کشمیر بہت نازک مسئلہ ہے جس پر عالمی برادری کی خاموشی قابل افسوس ہے اور اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم نظرانداز نہیں کر سکتی کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ اور پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے دے دے۔ حریت پسند رہنما کشمیری لیڈر یاسین ملک بھارتی ظلم و بربریت میں برسوں سے قید ہے جس پر تمام عالمی اداروں کی خاموشی قابل افسوس ہے۔ چودھری محمد سرور نے عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی کشمیری رہنما یاسین ملک کے لیے آزادی کی جنگ جاری رکھتے ہوئے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز ٹاسک فورس تشکیل دی۔ حریت
پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کی رہائی اور تمام کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کیلئے برطانیہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر آواز بلند کرتے ہوئے ہاؤس آف کامنز میں یاسین ملک کی رہائی کے لیے دستخطی مہم کا آغاز کیا جس پر 18 ہزار سے زائد لوگوں نے دستخط کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا اور ایک لاکھ دستخط کا ٹارگٹ پورا ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں ڈیبیٹ کرا کر یاسین ملک کی رہائی کو یقینی بنائیں گے۔ انسانی ہمدردی کا جذبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے چودھری محمد سرور نے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حصول میں کلیدی کردار ادا کیا جس کا مقصد ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی اور ترقی پذیر ممالک سے یورپی یونین کو ٹیکسٹائل کی برآمدات کو بڑھانا تھا۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس سے ترقی پذیر ممالک سے یورپی یونین کو درآمدات کے لیے وسیع پیمانے پر ٹیرف کی ترجیحات فراہم ہوئی جس سے غربت کے خاتمے، پائیدار ترقی اور عالمی معیشت میں ان ممالک کی شرکت کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی کو تقویت بھی ملی۔ چودھری محمد سرور نے اپنی گورنری کے دور میں کورونا وبا کے دوران 60کروڑ پرائم منسٹر فنڈز اکٹھے کرنے میں مدد کی اس کے علاوہ پنجاب ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے زیر صدارت سرکردہ تنظیموں کے ساتھ مل کر دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی۔ چودھری سرور کی سرپرستی میں 18 مہینوں میں 50 لاکھ سے زائد گھروں کی دہلیز پر صاف پانی مہیا ہوا۔ پنجاب ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بنا کر خدمتِ خلق کیلئے مثبت اقدام کرنے پر ’الخدمت فاؤنڈیشن‘ پاکستان کی جانب سے چودھری محمد سرور کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا، علمی سرپرستی کرنا، تعلیمی و رفاہی ادارہ قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔ چودھری سرور نے سیاست سے ہٹ کر فلاحی کاموں میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور خدمتِ خلق کیلئے ہسپتال بنائے سرور فاؤنڈیشن کے رجانہ اور چیچہ وطنی میں مکمل عملہ والے ہسپتال ہیں۔ رجانہ میں فاؤنڈیشن ہسپتال 2005 میں کھولا گیا اور اس میں کثیر التعداد مریضوں کا علاج کرنے کی گنجائش ہے۔ نازک صورتحال والے مریضوں، بچوں کی ایمرجنسی، بلڈ بینک اور مائیکرو ہیپاٹائٹس کلینک، آئی سی یونٹ، خواتین کی فلاح و بہبود کا کلینک، خاندانی منصوبہ بندی، بچوں کی دیکھ بھال، حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت پر کام کرنا، چھاتی کے کینسر اور دیگر مختلف قسم کے کینسروں سے نمٹنے کے لیے میموگرام کی سہولیات کے ساتھ مختلف قسم کے کینسرکی تشخیص جیسی ٹیکنالوجی والی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ رجانہ اور چیچہ وطنی دونوں ہسپتال غربت کی زندگی گزارنے والوں کے لیے معیاری صحت کی دیکھ بھال اور علاج بالکل مفت فراہم کر رہے ہیں جہاں 24 گھنٹے ایمرجنسی سروس، آپریٹنگ تھیٹر، جنرل اور پرائیویٹ وارڈ، نرسری اور 24 گھنٹے لیبر روم اور ایمبولینس سروس مہیا کی جاتی ہے۔ ان ہسپتالوں کا مقصد معیاری صحت جیسی خصوصی سہولیات فراہم کر کے اس علاقے کے مستحق لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنا، بہتر بنانا اور ان کی افزائش کرنا ہے۔ علم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ہے لہٰذا تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافے کے لیے چودھری محمد سرور نے تعلیمی شعبے میں اصلاحات لانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر کی حیثیت سے اعلیٰ تعلیم میں انقلابی اصلاحات لا کر بہت سے چیلنجز کا مقابلہ کیا جس سے نہ صرف طلبا بلکہ فیکلٹی کو بھی فائدہ پہنچا اور پنجاب کی جامعات کی کارکردگی میں مجموعی طور پر بہتری آئی۔ یہ میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنانے سے ہی ممکن ہوا ہے۔ ماضی میں کچھ سنگین حالات اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے یونیورسٹیاں ترقی نہیں کر سکیں۔ لیکن چودھری سرور نے اپنے گورنری کے دور میں پنجاب کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے چانسلر کی حیثیت سے اداروں میں مکمل شفافیت کو یقینی بنایا ہے۔ پنجاب یونیورسٹیوں کے چانسلر کی حیثیت سے اپنے دور میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی اولین ترجیح پاکستان کی ترقی کے لیے اعلیٰ تعلیم میں انقلاب برپا کرنا ہی ہے کیونکہ طلبہ پاکستان کا مستقبل اور اثاثہ ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تقریباً بیس ایکڑ پر محیط سرور فاؤنڈیشن پبلک سکول پیر محل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سیکڑوں غریب طلبہ اور طالبات کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ چودھری سرور کی بیگم پروین سرور ہر ہفتے پنجاب کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کیمپس کا انعقاد سرور فاؤنڈیشن کے تحت کراتی ہیں جس میں آنکھوں، دانتوں، ہیپاٹائٹس کے امراض سمیت دیگر بیماریوں کے تدارک کے لیے ماہر ڈاکٹر ہزاروں مریضوں کا مفت علاج اور ادویات مہیا کرتے ہیں۔ چودھری محمد سرور سابق گورنر آئندہ سیاست میں اپنا کیا کردار تعین کرتے ہیں اس کی بنیاد ان کے حقیقی حلقہ انتخابات بیرون ملک پاکستانی ہوں گے مگر اندرون ملک سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی آزاد رائے رکھنے والا خوش اخلاق اور قانون پسند شخص عمران کے ساتھ نہیں چل سکتا۔