راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ موجودہ افغان صورتحال کے بعد زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے ۔دہشت گردی کے باعث مشرقی سرحدپر 3بار کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
راولپنڈی میں افغان صورتحال پر پریس کانفرنس کرتے انہوں نے کہا کہ پاک افغان بارڈرپرصورتحال معمول کے مطابق ہے۔ پاکستان نے افغانستان کو فوجیوں کو ٹریننگ دینے کی پیشکش کی لیکن افغانستان نے پاکستان کی بجائے بھارت سے اپنے فوجیوں کو ٹریننگ دلوائی۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ داسو ، لاہور ,کوئٹہ اور گوادرکے واقعات میں افغان سرزمین استعمال ہوئی۔ان واقعات کے پیچھے را اور این ڈی ایس تھے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کا کردار منفی رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عسکری صورتحال بہت جلدی تبدیل ہوئی اور کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی تیزی سے حالات بدلیں گے۔ سرحد پر پاکستان کی طرف حالات قابو میں ہیں۔
چین اور ازبکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے عسکری تعاون کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک کی افواج میں کوئی براہ راست رابطے نہیں ہیں اور یہ حکومتی سطح پر ہی محدود ہیں۔
پنجشیر میں جنم لینے والی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا ہمیشہ سے خطرہ رہا ہے تاہم اس وقت صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی اور اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ افغانستان میں ابھی خانہ جنگی کا کوئی امکان نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پاکستان کی حکومت کا ان کے ساتھ یقیناً رابطہ ہوگا۔ ایک صحافی نے جب ان سے چمن پر آنے والے پناہ گزینوں کے حوالے سے سوال کیا تو میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہمارے ہاں کوئی پناہ گزین نہیں آئے۔
میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق سرحد پر افراتفری کی صورتحال نہیں ہے اور ہر آنے جانے والا متعلقہ دستاویزات کے ساتھ آ رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے یقینی بنایا جا رہا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان یا کسی اور گروہ کے رکن پناہ گزین بن کر پاکستان میں داخل نہیں ہو جائیں گے تو میجر جنرل بابر افتخار نے اس امکان کو رد نہیں کیا۔
اس سوال پر کہ کیا را اور افغان انٹیلیجنس کا گٹھ جوڑ برقرار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں حکومت سازی کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ بھارت کا اثر وہاں سے ختم ہو جائے گا۔
بھارت کا وہاں کیا کردار رہا ہے؟ جو بھی انھوں نے وہاں سرمایہ کاری کی وہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کیا گیا۔ انھیں افغان عوام سے کوئی لگاؤ نہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق ہم نے افغان رہنماؤں سے رابطے رکھنے کی کوشش کی لیکن جب بھی ہم مل کر واپس آتے تو کوئی منفی بیان سامنے آ جاتا ۔ این ڈی ایس را کے لیے پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کرتی رہی۔ اگر وہ اپنا کام کرتی تو ایسا نہ ہوتا جو ان کے ساتھ ہوا۔
ایک صحافی نے پوچھا کہ پاکستان نے طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے لیکن اگر افغان طالبان ایسا نہیں کرتے تو کیا پاکستان کوئی فوجی آپریشن کرے گی۔
اس سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ طالبان نے یقین دلایا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے پاکستان یا کسی بھی اور ملک کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے وہ وہاں آزادی سے نہیں رہ سکیں گے۔اگر پاکستان کی طرف کوئی مسئلہ ہوا تو وہ اس کے لیے تیار ہوں گے۔
سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان تمام حملوں کو منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور سب کو خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی حمایت حاصل تھی۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ جب مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھے اور مشرقی سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے جامع بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کا انعقاد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے بارڈر ٹرمینل کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا۔
افغان سرحد پر باڑ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی اور اہم کاوش تھی۔ 90 فیصد باڑ لگ چکی ہے۔ اس کام کے دوران کئی پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام ہو رہا ہے اور 50 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے سرحد پر سکیورٹی اور انٹیلیجنس تعاون کے علاوہ فوجیوں کی تربیت کی کئی بار پیشکش کی تاہم صرف کچھ ہی افغان افسر یہاں آئے جبکہ سینکڑوں تربیت کے غرض سے انڈیا گئے۔ اس تعاون کا پس منظر بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن پاکستان میں امن و امان کے قیام سے جڑا ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق افغان عوام کے بعد اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا80 ہزار سے زیادہ اموات، 102 بلین ڈالر کے نقصانات، اور ابھی بھی گنتی جاری ہے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان 78 راہداریاں ہیں جن میں سے 18 سرکاری نوعیت کی ہیں۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی راہداریاں کھلی رکھی گئی ہیں اور تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
غیر ملکیوں کے انخلا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا پاکستان ہی اب افغانستان سے انخلا کے عمل کا سب سے اہم حصہ ہے اور 5500 غیر ملکیوں کو پاکستان کے ذریعے افغانستان سے نکالا جا چکا ہے۔