جب سے طالبان نے افغانستان میں کنٹرول حاصل کیا ہے وہ افغانستان کے اندر امن کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔افغانستان میں فساد پورے ایشیا کا فساد ہے اس کی آبادی و خوشحالی پورے ایشیا کی آبادی و خوشحالی ہے۔ پاکستان چار دہائیوں سے افغانستان میں پائیدار امن کے لئے مؤثر کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ طویل جغرافیائی سرحدیں، مذہبی، سماجی، ثقافتی تعلق اور دفاعی حوالے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ایسے زمینی حقائق ہیں کہ جن کی بنیاد پر پاکستان برادر اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ سوویت یونین کی فوجی مداخلت، سوویت افواج کا انخلا اور اس کے بعد پیدا ہونے والے غیر سنجیدہ حالات، طالبان کی حکومت سازی، نائن الیون کا واقعہ اور اتحادی افواج کی جارحانہ آمد سمیت کسی بھی قسم کے حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ چالیس سال سے زائد عرصہ سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ نائن الیون سے قبل اورا س کے بعد غیر ملکی جنگجوؤں کی افغانستان آمد سے پاکستان کو امن و سلامتی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جرأت مندانہ شرکت کے نتیجے میں پاکستان کو انتہا پسندی، عدم برداشت اور ان سب کے نتیجے میں ہولناک دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔دہشت گردی کے بھیانک سلسلے کے نتیجے میں پاکستان کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے۔ معاشی، سماجی سرگرمیاں معطل ہو گئیں جب کہ کھیل کے میدان ویران ہو گئے۔ ہماری سیاحت بالکل ختم ہو کر رہ گئی پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کے مسائل اور افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے ملک کو منشیات، ناجائز اسلحے کی بہتات اور امن و امان کے حوالے سے سنگین مسائل نے لپیٹ میں لئے رکھا۔
پاکستان افغانستان میں سیاسی حکومت کی تشکیل میں ٹھوس کردار ادا کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں امن کی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان نے افغان طالبان اورا مریکہ کے درمیان سیاسی روابط کے لئے نتیجہ خیز کوششیں کیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان اوراتحادی افواج کے درمیان معاہدہ طے پا
گیا۔ اب وہاں سیاسی حکومت کے قیام کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں سیاسی استحکام اور بحالی دراصل جنوب مغربی ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی امن کی بنیادی ضرورت ہے۔ افغانستان کے پر امن ہونے کا مطلب وسطِ ایشیا کے تمام خطوں اور ممالک سے محفوظ تجارتی تعلقات کی بحالی ہے۔ پر امن افغانستان کی مدد سے علاقائی وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک کے درمیان تعاون و اشتراک کی راہیں ہموار ہوں گی۔
دباؤ میں لانے کے لئے امریکہ شروع سے ہی الزام تراشی کرتا رہا ہے کہ پاکستان طالبان کو مسلسل امداد فراہم کر رہا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر وہی الزام پاکستان پر عائد کیا ہے کہ حالیہ فتوہات طالبان نے پاکستان کی مدد سے حاصل کی ہیں۔ اس الزام تراشی کا مطلب بالعموم یہ لیا جاتا رہا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے اعترافِ شکست کا امریکی انداز ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دو دہائیوں سے جاری نام نہاد دہشت گردی کی جنگ مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ اس عرصہ میں امریکہ نے لاکھوں افغان تو ضرور ہلاک کر دیئے لیکن مسئلہ ایک فیصد بھی حل نہیں کر سکا۔ امریکہ نے اس عرصہ میں بہت کوشش کی کہ کسی طرح افغانستان کے سیاسی تھیٹر سے پاکستان کا کردار حذف کر دیا جائے اور بھارت مکمل طور پر اپنے قدم وہاں جام لے لیکن اسے اس میں ناکامی منہ دیکھنا پڑا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے ساتھ جو فضا پیدا ہوئی اس نے پاکستان کا کردار واقعی ہی حذف کر دیا تھا۔ کوئی اور ملک ہوتا تو خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتا لیکن پاکستان نے افغان عوام سے اپنے رشتے جو امریکہ نے کاٹ کر رکھ دیئے تھے ایک ناقابلِ یقین جد و جہد کے ذریعے بحال رکھے۔ آج طالبان کے دوبارہ سے افغانستان میں آنے کے بعد پاکستان کا نام پھر عزت اور پیار سے لیا جانے لگا ہے اور یہی پاکستان کی کامیابی ہے۔ ورنہ نائن الیون کے بعد جتنے بھی امریکی صدور برسرِ اقتدار آئے جب افغانستان کے بارے میں بات کرتے تھے تو ان کا انداز رعونت زدہ ہوتا تھا۔ ہم مخالفین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ان کا صفایا کر دیں گے۔ یہی دعوے کرتے ہوئے جارج ڈبلیوبش، بارک ابامہ، ڈونلڈ ٹرمپ رخصت ہو گئے اور افغانستان میں جو جڑیں اکھاڑی جانی تھیں وہ پہلے سے بھی زیادہ گہری ہوتی گئیں۔ ببانگِ دہل کہا جا رہا تھا کہ ہم طالبان کو اور القاعدہ کو شکست دیں گے اور یہ کہ ہم یہ گوارہ ہی نہیں کر سکتے کہ افغانستان پھر سے طالبان کے ہاتھ میں آ جائے۔ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ 20 سالہ جنگ کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ ابھی پوری طرح امریکی فوج افغانستان سے نکلی بھی نہیں ہے کہ طالبان نے پھر سے قبضہ کر لیا۔ امریکہ نے جو یوٹرن لیا ہے وہ ساری دنیا نے دیکھا ہے، رسوائی ہی رسوائی ہے۔
افغانستان میں قائم امارات اسلامی نے اعلان کیا ہے کہ ہم پاکستان کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ افغانستان پاکستان کا قریب ترین برادر اسلامی ملک ہے۔ دونوں ممالک کے مذہبی اور ثقافتی رشتے بہت گہرے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے تجارتی مفادات بھی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں اور چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان سے راہداری کی سہولت بھی درکار ہے۔ ماضی میں بھارت کی وجہ سے پاک افغان تعلقات میں پیش رفت نہیں ہو پا رہی تھی۔ افغان حکمران پوری طرح بھارتی حکمرانوں کے زیرِا ثر تھے اور وہ ان ہی کے اشاروں پر ناچتے رہتے تھے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک بھارتی حکمران افغانستان میں اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہیں۔ صرف افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کا مختصر سا عرصہ ایسا گزرا ہے جب یہ ملک بھارت کے چنگل سے پوری طرح آزاد ہوا تھا۔ اس عرصہ میں پاک افغان تعلقات عروج پر تھے۔ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اور دونوں ممالک کے معروضی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہو گا۔ بلاشبہ پر امن اور مستحکم افغانستان اور پاکستان ہی دونوں ممالک کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہو ں گے۔ دونوں ملکوں کی امن و سلامتی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے اور دونوں کا حال اور مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہے۔