موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات جو کیلیفورنیا، اوریگون اور واشنگٹن میں ہونے والی آتشزدگیوں یا طوفانوں کے تباہ کن عوامل سے کہیں زیادہ ہیں، کا تصور کرنا مشکل ہے۔ امسال پاکستان اور یورپ میں شدید تر گرمی کی مہلک لہر اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھیانک سیلاب آیا ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ خراب صورتحال جو پوری نوع انسانیت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے، وہ بحر آرکٹک برف کی تیزی سے کمی ہے۔ الفریڈ ہچکاک کی فلم ”دی کلائمٹ بم“ کی طرح گلوبل وارمنگ کی شرح دوگنا ہو سکتی ہے جو تشویشناک ہے۔ ہر سال ستمبر میں، بحر آرکٹک میں برف کی موٹائی اپنی کم ترین سطح تک پہنچ جاتی ہے جس کے بعد یہ دوبارہ بڑھنا شروع کرتی ہے۔ سائنس دان اس کا پچھلے کئی سال سے موازنہ کرتے آ رہے ہیں۔ نتائج ہمیں خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ کولو راڈو کے برف کے ڈیٹا سینٹر کی پیمائش سے پتا چلتا ہے کہ آرکٹک کے وسط میں پہلے کی نسبت بہت کم برف موجود ہے، 2019میں یہ برف 5500 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ سمندری برف نا صرف ایک چھوٹے سے علاقے پر مشتمل رہ گئی ہے بلکہ یہ پہلے سے پتلی بھی ہے۔ سب سے قدیم سمندری برف (چار سال سے زیادہ پرانی)، جو جلد نہیں پگھلتی، اب صرف ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اب زیادہ تر برف پہلے سال کی ہے جو نازک ہوتی ہے اور جلد پگھل جاتی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بحر آرکٹک سے ایک یا دو دہائیوں میں برف کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ چند عشروں میں ممکنہ طور پر سورج کی روشنی سے ماحول میں 1 ٹریلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کرنے کے
مترادف تابکار حرارت پیدا کرتا ہے۔ 270سال کے صنعتی سفر میں ماحول میں 2.4 ٹریلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کی گئی ہے۔ 1979 سے 2016 تک آرکٹک کی برف تقریباً 30 فیصد پہلے ہی پگھل چکی ہے اور گرمی میں اضافہ کے باعث باقی تیزی سے پگھل رہی ہے۔ہاں البتہ 2020 میں کسی قدر اس صورت حالات میں بہتری دیکھی گئی اور برف کی تہہ پہلے کی نسبت موٹی ہوئی۔
عالمی حدت میں اضافہ کے باعث برف پگھلنے سے آئندہ 25 سال تک کے عرصہ میں زمین کا شمالی کنارہ برف سے محروم ہو سکتا ہے جو کس قدر خوفناک صورت احوال ہو گی اس بارے میں صرف سوچا جا سکتا ہے۔ پچھلے ماہ ہی شمال مشرقی گرین لینڈ میں ریکارڈ گرمی کے بعد مین ہیٹن سے دوگنا سائز کا برف کا ٹکڑا آرکٹک سے ٹوٹ گیا۔ زمین پر گرین لینڈ کی برف کی چادر بھی خطرے میں ہے۔ اوسط گلوبل وارمنگ کی نسبت آرکٹک وارمنگ کم از کم دوگنا تیزی سے واقع ہونے کے ساتھ، گرین لینڈ کی پگھلنے کی شرح گزشتہ دو دہائیوں میں کم از کم تین گنا بڑھ گئی ہے۔ برف پگھلنے سے سمندر کی سطح 7 میٹر تک بڑھ جاتی ہے جس سے ساحلی شہر ڈوبنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ آرکٹک وارمنگ کو روکنے کے لئے فوری اقدامات وقت کا اہم ترین تقاضا ہیں کہ پہلے ہی فضا میں موجود کاربن کی مقدار دو گنا ہو چکی اس میں کوئی اضافہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پرما فراسٹ پگھلنے سے نائٹرس آکسائڈ اور میتھین ایسی گرین ہاؤس گیسوں سے زیادہ مسائل پیدا ہوں گے۔ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ سائبیریا کی سمندری پٹی سے زیادہ میتھین خارج ہو۔ ان خطرات کو کم کرنے کے لئے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو تیزی سے کم کرنا ضروری ہے، لیکن کافی نہیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تیز رفتار کمی سے 2050 تک درجہ حرارت میں 0.1 سے 0.3 ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی واقع ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ میتھین، بلیک کاربن، ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) اور ٹروپوسفیرک اوزون جیسی نام نہاد قلیل فضائی آلودگیوں کے اخراج میں کمی لانا بھی ضروری ہے۔ یہ 2050 تک چھ گنا گرمی کم کر سکتا ہے۔ ان سپر آلودگیوں کے اخراج کے خاتمہ سے مجموعی طور پر گلوبل وارمنگ کی شرح آدھی اور متوقع آرکٹک وارمنگ میں دو تہائی کمی واقع ہو گی۔ کچھ پیشرفت ہو رہی ہے۔ تقریباً چار سال قبل روانڈا میں 197 ممالک نے مونٹریال پروٹوکول میں ایک ترمیم منظور کی تھی جس کا مقصد گلوبل وارمنگ کو کم کرنا تھا۔ مونٹریال پروٹوکول کے تحت پہلے ہی گلوبل وارمنگ بڑھانے اور اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے تقریباً 100 کیمیکلز پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ امریکی سینیٹ نے گزشتہ ماہ 2036 تک ایچ ایف سی کو 85 فیصد تک کم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ کیلیفورنیا 1960 کے مقابل کاربن کے اخراج کو 90 فیصد تک کم کر چکا، 2030 تک باقی مقدار کو نصف کیا جائے گا۔ 25 امریکی ریاستوں کے گورنروں نے 2030 تک میتھین کے اخراج کو 40 سے 50 فیصد تک کم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ یہ قابل تعریف اقدامات ہیں لیکن ان تک پہنچنے کے بعد عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی ضرورت ہو گی۔
(بشکریہ: خلیج ٹائمز)