اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے وضع کردہ معیار پر پورا اترنے کے لئے اینٹی منی لانڈرنگ قانون سازی کی ضرورت ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز کرنا غلط ہے کہ منی لانڈرنگ کے معاملات میں بغیر وارنٹ گرفتاریاں ایف اے ٹی ایف کی ضرورت نہیں ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے طریقہ کار (سی آر پی سی) کے مطابق متعدد جرائم ہیں جن کے لئے وارنٹ کے بغیر گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ بغیر وارنٹ گرفتاری آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ قابل شناخت جرائم ہیں جن میں پولیس کسی ملزم کو بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتی ہے۔ کینیڈا اور امریکا جیسے ممالک میں بھی کچھ معاملات میں پوچھ گچھ کے لئے عدالت کو ملزم کی گرفتاری کے لئے اجازت طلب کرنا ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں جو بل پیش کیے جا رہے ہیں وہ ایف اے ٹی ایف سے منسلک نہیں یا ایف اے ٹی ایف کی ضرورت نہیں ہیں۔ ایسی کوئی شق نہیں ہے جو ایف اے ٹی ایف کے طے کردہ معیار پر پورا نہ اترتی ہو۔ ایک غیر ملکی کنسلٹنٹ کی رپورٹ اور ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف کی رپورٹوں کی روشنی میں اس قانون سازی پر کام کیا گیا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی طرف سے ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو بلوں کو مسترد کرنا بدقسمتی کی بات ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ ان بلز کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا کہ انہوں نے ایوان میں واضح طور پر وضاحت کی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اے ایم ایل اے کے مطابق ایک تفتیشی ایجنسی رہا ہے جو 2010ء میں نافذ کیا گیا تھا اور موجودہ حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اینٹی منی لانڈرنگ قانون سازی میں نیب کو تفتیشی ایجنسی کی حیثیت سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیب قوانین میں ترمیم کے دروازے کھلے ہیں مگر اس بات کا خیال رکھا جائے گا کے اس سے احتساب کا عمل متاثر نہ ہو۔