کوئی مانے یا نہ مانے مگر مسلم لیگ نون کا کارکن اس وقت تحریک انصاف کے غداری کے حوالے سے کئے جانے والے بیانیے کی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ وہ سمجھ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی پروپیگنڈہ ٹیم انتہائی کامیابی کے ساتھ عمران خان کے چار برسوں کی ناکامیوں کو محض ایک معمول کے مشکوک سے خط کے ذریعے دبا رہی ہے۔ اسے سوشل میڈیا پر یہ بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر بیائیے کی جنگ میں نواز لیگ کے دفاع کا یہی عالم رہا تو عین ممکن ہے کہ انتخابات میں ان کی پارٹی وہ جنگ ہار جائے جو اس نے پارلیمنٹ میں جیتی ہے۔ مجھ سے کچھ کارکنوں نے اس قسم کے تحفظات پر بات کی تو میرا جواب تھا کہ میں نے نوے کی دہائی سے ملکی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے، میں جانتا ہوں کہ جو نکالا جاتا ہے وہ واپس لانے کے لئے نہیں نکالا جاتا۔ تحریک انصاف اس وقت تاثر دے رہی ہے کہ سادہ اکثریت سے نکالے جانے والے عمران خان دو تہائی اکثریت سے واپس آ ئیں گے مگر کیسے،اس کا ان کے پاس ایک ٹوئیٹڑ ٹرینڈ کے سوا کوئی جواب نہیں ہے۔
ہم زمینی صورتحال کو ڈسکس کرنے سے پہلے ورچوئل ورلڈ کے تاثر پر بات کر لیتے ہیں۔ یہ بات واقعی درست ہے کہ تحریک انصاف امپورٹڈ حکومت نامنظور کا ٹرینڈ ایک طویل عرصے تک ٹاپ پر رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔اس کی وجہ سوشل میڈیا کے حوالے سے تحریک انصاف کی سنجیدگی، بجٹ، مہارت اور منصوبہ بندی ہے نواز لیگ ان سب کے پاس سے بھی نہیں گزرتی۔ مجھے اس میٹنگ کااحوال کسی نے بتایا جہاں میاں نواز شریف کا ٹوئیٹر ٹرینڈ بنانے کاایک اخبار کے مدیر کی طرف سے مشورہ دیا گیا تو ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو گئی جس میں اسی اخبار کے ایڈیٹر کو کہا گیا کہ وہ اس کمیٹی کا رکن بن جائے جو میاں نواز شریف کے ٹوئیٹس کو اوکے کیا کرے۔ اس بے چارے نے سو بہانے کر کے جان چھڑوائی اور کہا کہ یہ اس کا کام نہیں ہے کہ وہ ہر ایشو پر نوازشریف کے موقف اور الفاظ میں پھنسا رہے۔ مقصد یہ تھا کہ نواز شریف کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ کچھ مخصوص ہاتھوں میں رہے ۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے پاس جو سوشل میڈیا کی ٹیکنیکل اور کانٹینٹ کے حوالے سے جو مہارت موجود ہے نواز لیگ کے پاس عشر عشیر بھی نہیں۔ ان کی سوشل میڈیا کی مہارت یہی ہے کہ اس ونگ کے عہدے تقسیم ہوجائیں اور عہدوں پر بیٹھے لوگ خود ایک چھوٹے موٹے نواز شریف بن جائیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے مریم اورنگزیب کو اس ٹرینڈ کی حقیقت کھول کر بتا دی اورانہوں نے پریس کانفرنس میں دہرا دی مگر یہ ایک مستقل کام ہے۔ میں نے کہا کہ ان کے سوشل میڈیا کے عہدیدار آپس میں عہدوں پرلڑنے کے سوا کچھ نہیں کرتے سو ان کی طرف سے منصوبہ بندی کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ نواز لیگ کے پاس ایسے کئی ٹوئیٹر ہینڈلرز اور لیڈرز موجود ہیں جو ٹوئیٹر کے ون ملین فالوروز کلب میں فال کرتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا ان کے ساتھ کبھی کسی ٹوئیٹر ٹرینڈ کو ٹاپ پر رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ پروپیگنڈے میں تین چیزیں بہت اہم ہیں، اول مواد یعنی الفاظ کا چناؤ، دوم استعمال کی تکنیکی مہارت اور سوم منصوبہ بندی۔ پی ٹی آئی ان تینوں کے ساتھ اپنے ٹرینڈز کو ٹاپ پر رکھے ہوئے ہے۔
ان سب کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک اور شے اہم ہے اور وہ ہے جارحیت۔ سوشل میڈیا پرجارحیت، مواد اور متن سے دس گنا زیادہ حاوی ہے۔ نواز لیگی، شہباز گل کو بہت ناپسند کرتے ہیں مگر میں اس کی اپنے کام کے ساتھ کمٹ منٹ اور اس میں پاورفل ہونے کو بہت سراہتا ہوں۔ مان لیجئے کہ نواز لیگیوں کے پاس ایک بھی شہباز گل موجود نہیں ہے۔ مجھے گذشتہ روز ایک نواز لیگ کے حامی دانشور نے کہا کہ شہباز گل ہونا فخر کی بات نہیں جس پر میرا جواب تھا کہ آپ کی پارٹی اس وقت تک مار کھاتی رہی جب تک اس نے وہ نہیں کیا جو روم میں روم والے کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے انداز سیاست پرڈٹے رہتے تو عمران خان اس وقت بھی وزیراعظم ہوتے ۔ آپ کو میڈیا میں وہی کچھ کرنا ہوگا جس کی مارکیٹ ہے، جو بکتا ہے۔ مجھے بصدا حترام کہنے دیجئے کہ فوادچوہدری اور شہباز گل کا مقابلہ مریم اورنگ زیب جیسی ڈیسنٹ اور مہذب خاتون کے بس کی بات نہیں ہے۔ مجھے کسی نے کہا کہ طلال چوہدری ہونا چاہیے تو میرا جواب تھا کہ وہ بندہ جو مستقل مزاجی کے ساتھ پروفیشنل کام کرے اوراس کے لئے نواز لیگ کو اپنی صفوں میں نظریاتی لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا۔میری تجویز ہے کہ اس موقعے پرمسلم لیگ کو مریم نواز کو میدا ن میں اتارنا ہو گا۔ شہباز شریف کام ، کام اور کام کی علامت ہیں۔ باقی لوگوں کو اپنی اپنی صلاحیتوں کے ذریعے اپنی اپنی ذمے داریاں سمجھنی ہوں گی۔ میں حیران ہوں کہ نواز شریف اس اہم ترین موقعے پر خاموش ہیں۔ مریم نواز ایک روز متحرک ہوئی تھیں جب پنجاب اسمبلی گئی تھیں اور پھر اب سنا ہے کہ وہ آج کارکنوں سے ایک حلقے میں ملاقات کر رہی ہیں۔ یہ خاموش کیوں ہیں، ٹراما میں کیوں ہیں۔ حمزہ شہباز شریف کہاں ہیں، وہ اب وزیراعلیٰ پنجاب ہیں، وہ کھل کر کیوں نہیں کھیل رہے؟
مان لیجئے کہ نواز لیگ کے’ مواد‘ میں بھی کمزوری ہے۔ عمران خان کا نعرہ ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ اسی طرح آگے جا رہا ہے جس طرح ان کا کرپشن کا نعرہ مقبول ہوا تھا۔ مسلم لیگ نون ان کے مقابلے میں ایک بھی زبان زد عام، عوامی نعرہ نہیں دے سکی۔ کارکن نعرے اور دلائل لیڈر شپ سے لیتا ہے مگر لیڈر شپ اس سے فارغ نظر آر ہی ہے۔ کالم کے اختتام پر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ’بیانیے‘ کے محاذ پر شاندار کارکردگی کے باوجود یہ درست نہیں کہ عمران خان واپس آ رہے ہیں۔ عمران خان 2018 کے مقابلے میں بہت کمزور پوزیشن پر ہیں۔ اس وقت کوئی طبقہ ان سے ناراض نہیں تھا اور آج کوئی طبقہ ان سے خوش نہیں ہے،آج ان پر چار برس کی ناقص ترین کارکردگی کا بوجھ ہے۔اس وقت الیکٹ ایبلز کو ان کے پاس پہنچایا جا رہا تھا اور آج الیکٹ ایبلز ان کی ناقص کارکردگی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ اس وقت وہ مقتدر حلقو ں کے پیارے تھے مگر آج وہ سلیکٹڈ سے ریجیکٹڈ ہو چکے ہیں سو اگروہ ماضی قریب میں ان تمام سہولیات کے باوجود ساد ہ اکثریت نہیں لے سکے تھے تو آج فئیر اینڈ فری انتخابات میں ان کے پاس تیس، چالیس نشستیں بھی آجائیں تو اسے کامیابی سمجھیں۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں لہٰذا وہ احتجاج کی سیاست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ انتخابی نتائج کو بھی مسترد کریں گے اور دھرنے دیں گے مگر اس سے کیا فر ق پڑتا ہے، دھرنا تو انہوں نے اس سے پہلے بھی کئی ماہ مسلسل دیا تھا۔ مسلم لیگ نون کو اقتدار مل چکاسو ضرورت صرف یہ ہے کہ سیاسی لڑائی اب خود لڑی جائے، بیانیے اور پروپیگنڈے کے محاذ پر کمی، کوتاہی کو دور کیا جائے ۔ مجھے یہ تجویز دینے میں عار نہیں کہ مریم نواز شریف اس صورتحال میں اپنے کرزمے کا بہترین استعمال کر سکتی ہیں۔
مریم نواز میدان میں آئیں
09:02 AM, 27 Apr, 2022