میلان پہنچ کر جب ٹیورن یونی ورسٹی کاشعبہ اردویادآیا تو تلازمہء خیال مجھے صدیوں پیچھے تک لے گیا۔بہ قول منیب الرحمن ’’ذہن کے گوشے میں یادوں کی مہک پھیل گئی +جیسے اک پھول چنبیلی کا کھلا رات گئے ‘‘…چلیں اپنے سفرکی حکایت سناتے سناتے کچھ بیان اطالیہ کے اردوشعراکابھی ہوجائے ۔آخراردوکی کہانی بھی تو ہماری اپنی ہی کہانی ہے ۔وہ زمانہ جب فرانسیسی’’ سونے کی چڑیا‘‘پر اپنے دندان ِآزتیزکرنے کے لیے ہندوستان آپہنچے تھے۔ ان کی فوج میں یہاں وہاں سے بہت سے طالع آزمائوں نے بسیراکرلیاتھا ۔چوں چوں کے اس مربعے میں اطالوی بھی تھے۔ ان اطالویوں میں ایک صاحب مائیکل فیلوز(General Michael Filose)بھی تھے ۔مائیکل فیلوز، اٹلی چھوڑکر اچھے دنوں کی تلاش میں بالکل اسی طرح ہندوستان آیاجس طرح آج ہمارے نوجوان اچھے مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے ہیں ۔یہ زمانہ تھاجب اہل یورپ، برصغیرکو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انھیں یہاں کا رہن سہن،یہاں کی زبان،یہاں کی سادگی،لطافت، شیرینی ،فنون لطیفہ سے دلچسپی اور تہذیب متاثرکرتی۔ وہ اپناوطن چھوڑ چھاڑکریہاں آناپسندکرتے تھے ۔یہاں آکربسیراکرنے والوں میں کچھ تو یہاں کی زبان اور تہذیب سے ایسے متاثرہوتے کہ اپنی زبان کی جگہ یہاں کی زبان سیکھنے کو کمال سمجھتے اور اسی کی تحصیل میں عمریں گزاردیتے۔وہ ایساکیوں نہ کرتے ۔ آخریہ ایک ترقی یافتہ قوم کی زبان تھی۔اس زبان کے شائقین میں وہ بھی تھے جو ترک ِوطن کرکے ہندوستان آگئے اور وہ بھی تھے جو اپنے ہی اوطان میں رہتے ہوئے اس کے عشق میں گرفتارہوئے۔ اسباب، تہذیبی ہوں یا سیاسی یا مذہبی، اردوسے متاثرہونے والوں کی بڑی تعداداپنے ملکوںمیں رہتے ہوئے اس زبانِ شیریں میں مکالمے کی خواہش کیاکرتی تھی یہاں تک کہ اردوکے یورپی شائقین اس امیدپر یورپ کے ریلوے سٹیشنوں کے چکرلگایاکرتے کہ شایدہندوستان سے آنے والاکوئی مسافر مل جائے جس سے مکالمہ کرکے اردوگفتاری کا لطف اٹھایاجاسکے۔ان لوگوںنے اردوصرف و نحو، لغت نگاری،فزکس،فارمیسی، زراعت، قانون ، اقلیدس، اکنامکس، نفسیات، ہیئت اور طب وغیرہ میں ایسے نقوش ثبت کیے جو مستقبل میں ان موضوعات پربڑے کاموں کی اساس قرارپائے ۔
مائیکل فیلوز ۱۷۷۰ء میں ترک وطن کرکے کلکتہ پہنچا ۔فرانسیسی فوج میں شمولیت نے اسے دنیوی ترقی کی راہ دکھائی لیکن اردواور برصغیرسے محبت خود اس کی ہستی سے بڑھ کر اس کے پورے خانوادے میں سرایت کرتی چلی گئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ خودہی نہیں اس کے خاندان کی آنے والی نسلیں بھی اردومیں شاعری کرتی رہیں ۔
اس کا بیٹا جان بپٹسٹ (Colonel John Baptists Filose)،جان کا بیٹاجولین فیلوزمتخلص بہ طالب (Major Julian Filose)اس کا بیٹا فلورنس فیلوز(Lt Col Sir Filorence Filose متخلص بہ مطلوب ، سب اردوکے شاعر تھے ۔اس اطالوی خاندان کا دوسرا شاعر جان بپٹسٹ ہندوستان ہی میں پیداہوا۔ اس نے مرہٹہ فوج میں خدمات انجام دیں ۔اس کے تحت تین بٹالین فوج تھی۔ وہ کرنل کے عہدے سے سندھیاکی فوج کے کمانڈرانچیف کے منصب تک پہنچااور پینتیس سال تک مرہٹہ فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد۱۸۴۶ء میں راہی ِملک عدم ہوا۔ اعتمادالدولہ کرنل جان بپٹسٹ فیلوز صاحب بہادر برق جنگ متخلص بہ جان کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے لکھاہے کہ :
He was a great soldier and a Persian Scholarاور اس کا فارسی کلام بھی نقل کیاہے :
جان بعجز و نیازمی دارد
ازبزرگان وسیلہ می آرد
توغفورالرحیم و من بدکار
ہرچہ بہتر بود بر آنم دار
ازسر مصرعہ حرف نام اخیر
توعلیمی گناہ من بپذیر
جان کا بیٹاجولین فیلوز (۱۷۹۷ء… ۱۸۴۰ء)بھی مرہٹہ فوج میں شامل ہوکر میجرکے عہدے تک پہنچا۔اسے عام طورسے باباجان کہاجاتاتھا۔ اس کا تخلص ’طالب ‘تھا۔طالب کانمونہء کلام دیکھیے:
ہررنگ وگل میں تیری قدرت کھلی ہوئی ہے
تصویرتیری یہ ہے خودکیوں چھپاہو ا ہے
………
توشکل اپنی جب سے مجھ کو دکھاچکاہے
ہے دن کوآہ و نالہ شب ،گریہ وبکاہے
کیاکیاکروں بیاں میں سوزِدروں کی حالت
سینہ ہے سارابریاں، دل بھی جلاچکاہے
فرہادوقیس و وامق پہنچے بہ منزل ِعشق
ڈھونڈاہے جس نے جس کو آخروہ پاچکاہے
………………
طالب کا ذکرہوتو مطلوب کا ذکربھی آہی جاتاہے ۔یہاں صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ باپ طالب ہے توبیٹامطلوب۔فلورنس فیلوز کا تخلص مطلوب(۱۸۲۹ء…۲۰؍اکتوبر۱۹۱۲ء) تھا۔وہ طالب کی پانچویں اولادتھااور اپنے آباکی طرح فوج سے وابستہ رہا ۔مہاراجہ سندھیاکااے ڈی سی بنا، اردوشاعری میں کافی درک تھا یہاں تک کہ اس نے اپناپورادیوان مرتب کیاجو۱۸۶۹ء میں نظامی پریس کانپورسے شائع بھی ہوا۔کلام سے ظاہر ہے کہ اس نے برکت علی نحیف ابن سیدوزیرعلی سے مشورئہ سخن کیا۔ :
مطلوب شعرگوئی سے گرتجھ کو عشق ہے
برکت علی نحیف کو اپنا مشیر جان
برکت علی کے والد سیدوزیرعلی مرزاغالب کے شاگرد تھے۔
اتہام آیاہے ہم پہ بوسے کا
اتنا کیوں ہم کو منہ لگا بیٹھے
پارئہ دل کیا ہے خاکستر
ہم بناتے ہیں کیمیا بیٹھے
…………
عکس رخ چمکارہاہے آئینہ در آئینہ
کیایہ برجستہ ہواہے آئینہ درآئینہ
………
ابروئے یارپہ ہے زلف پریشاں مطلوب
چادرکعبہ یہ اوڑھے ہوئے حجاج ہے آج
…………
نمونہء کلام کو دیکھ کرکہاجاسکتاہے کہ مطلوب نے اپنارنگ نکال لیاتھا مثال کے طورپر یہ اشعار دیکھیے :
لو میرزاصاحب یہ رہی آن ہماری
کس شان سے نکلی ہے مغل جان ہماری
کیامعنی گناہوں سے نہ محفوظ رہیں ہم
ہیں حضرت مریم جو نگہبان ہماری
……………
رخ سے ہواتیرے دل ِمطلوب منور
قائم ہواخورشیدسے مہتاب میں شعلہ
اردو ادب کے اوّلین مورخ ڈاکٹر رام بابوسکسینہ نے اپنی کتابEuropean & Indo-European Poets of Urdu & Persian میں اطالوی شعرا کے اس خاندان پورا کا شجرئہ نسب فراہم کردیاہے ۔ہم نے اپنے سفرنامہ اطالیہ کی مناسبت سے اردوکے اطالوی شعر کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ مرادنہیں اردوزبان و ادب نے یورپ میں صرف اطالویوں کو متاثرکیا ۔ایسانہیں اردو شعروادب کی تاریخ میں اطالوی ہی نہیں برطانوی، پرتگیزی جرمن، فرانسیسی، امریکی اور سکینڈے نیوین ممالک کے باشندوں کا تخلیق کردہ اردو سرمایہ بھی موجود ہے جو مختلف یورپی ممالک کے باشندوں میں پھیلنے والی اردوکی خوشبو کاپتادیتاہے ۔