بیجنگ : چین نے" اینٹی فوڈ ویسٹ لا "کا مسودہ نظر ثانی کے لیے نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کی سٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کر دیا۔
چینی خبر رساں ادارے کے مطابق چینی حکومت کھانا ضائع کرنے والے صارفین سے اضافی چارج کرنے کے ایک نئے ‘‘اینٹی فوڈ ویسٹ لا’’ کے مسودے پر غور کر رہی ہے۔
قانون کے تحت جو صارف ضرورت سے زیادہ کھانا لے کر ضائع کرے گا ریستوران اس سے اضافی روپے وصول کرسکیں گے۔اینٹی فوڈ ویسٹ لا کا مسودہ گزشتہ روز نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کی سٹینڈنگ کمیٹی کو نظر ثانی کے لیے پیش کیا گیا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 900 ملین ٹن سے زیادہ کھانے کی اشیا ضائع کر دی جاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماحول سے متعلق پروگرام کے فوڈ ویسٹ انڈیکس یعنی کھانے کی اشیاء ضائع کرنے کی فہرست میں یہ بتایا گیا ہے کہ دکانوں، گھروں اور رہیسٹورانٹ میں موجود 17 فیصد کھانا کوڑے دان میں جاتا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ عالمی مسئلہ، ماضی میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ بڑا اور سنگین ہے۔
ایک برطانوی فلاحی ادارے راپ سے منسلک رچرڈز سوانل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال 923 ملین ٹن ضائع کیے جانے والے کھانے کو کم از کم چالیس ٹن کے 23 ملین ٹرکوں میں بھرا جا سکتا ہے، یہ اتنے زیادہ ٹرک ہیں کہ انھیں زمین کے گرد سات مرتبہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
ایک طرف تو کروڑوں ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے لیکن دوسری جانب صرف سنہ 2019 میں 690 ملین لوگ بھوک سے بری طرح متاثر ہوئے۔ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں بھوکے افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اسے پہلے صرف امیر ممالک کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا جہاں صارفین ضرورت سے زیادہ کھانا خریدتے ہیں۔ لیکن اس نئی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں کھانا بڑی تعداد میں ضائع کیا جا رہا ہے۔