لاہور : انسانی جسم میں اللہ نے معلومات کا حیرت انگیز منبہ ڈی این اے کی شکل میں رکھا ہے , یہ جسم میں موجود خلیوں کے اندر انسان کی ساری داستاں چھپائے ہوئے ہیں اور ابتدائے آفرینش سے لے کر موجودہ نسلِ آدم کا ہر سراغ اسی ڈی این میں چھپا ہے۔
ڈی این اے کی لمبائی حیرت کا ایک سمندر ہے۔ ایک انسانی خلیے میں تقریباً چھ فٹ لمبا ڈی این اے کا دھاگہ پایا جاتا ہے۔ ایک مکمل انسان کے تمام خلیوں کے ڈی این اے کو لمبائی کے رخ پرجوڑا جائے تو اس کی لمبائی تقریباً گیارہ ارب کلومیٹر بنتی ہے جو زمین کے سورج کے فاصلے سے ستر گنا سے بھی زائد ہے۔
یعنی ایک جدید ترین الٹرا سانک طیارہ جس کی رفتار آواز سے آٹھ گنا تیز ہے وہ اس فاصلے کو سوا صدی میں طے کرے گا۔
اگر ایک ٹائپسٹ 60 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے 8 گھنٹے روزانہ ڈی این اے کے نیوکلیوٹائیڈز کو ظاہر کرنے والے مخفف حروف تہجی ہی کو ٹائپ کرے تو بغیر کسی چھٹی اور آرام کے بغیر پندرہ سال میں صرف ایک خلیے کا ڈی این اے لکھا جا سکتا ہے۔
جبکہ اس سے جو کتاب تیار ہو گی اگر اس کے ایک صفحے پر پانچ سو الفاظ ہوں اور کل 1000 صفحات ہوں تو ایسی 280 کتابیں تیار ہوں گی جن پرصرف ایک خلیے کی معلومات ہوں گی۔ ایک انسان کے تمام خلیوں کی معلومات لکھنے کے لیے روئے زمین کے تمام وسائل ناکافی ہیں۔ اتنی لمبائی کے باوجود یہ انتہائی کم جگہ گھیرتا ہے۔
ڈی این اے کے دس لاکھ نیوکلیوٹائیڈ اتنی جگہ گھیرتے ہیں جتنی جگہ پر کمپیوٹر ایک میگا بائٹ ڈیٹا سٹور کرتا ہے۔ اور ایک خلیے کا مکمل ڈی این اے 3 گیگا بائٹ جگہ گھیرتا ہے۔