کل یعنی 25 ستمبر کوپاکستان میں "اخبار بینی کا قومی دن " منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا آغاز 2019 میں ہوا تھا۔ یہ دن منانے کی تجویز اخبارات کے مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS) نے دی تھی۔مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں لیکن اس دن کو منانے کا مقصد یقینا یہ ہو گا کہ اخبار بینی کے فوائد بتا کر عوام کو اخبار پڑھنے کی طرف راغب کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی اخبار کوئی اہمیت رکھتا ہے؟ صحافت اور علوم ابلاغیات کی تدریس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے، مجھے اکثر یہ سوال سننے کو ملتا ہے۔طالب علم پوچھتے ہیں کہ وہ اخباری صحافت کی تعلیم کیوں حاصل کریں؟ کیونکہ اکثر و بیشتر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ " یہ سوشل میڈیا کا دور ہے"۔نوجوانوں کا یہ سوال اور فکر مندی قابل جواز ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں نوکری کے لئے تگ و دو کرنا ہوتی ہے، لہذا وہ بجا طور پر اس سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ " یہ سوشل میڈیا کا دور ہے"۔ جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا نے ساری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا نے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ اثرات مثبت ہیں یا منفی، اس بحث سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہمار ے معمولات حیات کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد اور مقبولیت سے قبل ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا(خاص طور پر ٹیلی ویژن چینلوں) کا ڈنکا بج رہاتھا۔2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بیسیوں ٹیلی ویژن چینلوں کے لائسنس جاری ہوئے۔کئی پرائیویٹ ٹی۔وی چینلوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔ خاص طور پر نیوز چینلوں نے گھر گھر میں اپنی جگہ بنا لی۔ ان چینلوں سے نشر ہونے والے ٹاک شوز کی بدولت عوام الناس میں قومی سیاست کے متعلق شعور پیدا ہوا۔ کم وبیش ہر عمر اور طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری سیاست میں دلچسپی لینے لگے۔ اس زمانے میں کہا جانے لگا کہ اب پرنٹ میڈیا کا دور تمام ہو گیااوراخباری صحافت کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ اخبارات سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی ٹیلیویژن چینلوں کا رخ کرنے لگے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے صحافت اور علوم ابلاغیات کے شعبہ جات میں زیر تعلیم نوجوان بھی الیکٹرانک میڈ یا پڑھنے میں دلچسپی لینے لگے۔ زیادہ تر طلبا و طالبات الیکٹرانک میڈیا میں سپیشلائزیشن کرنے کے خواہاں ہوا کرتے تھے۔ ڈگری کے حصول کے بعد بیشتر نوجوانوں کی خواہش ہوتی کہ انہیں کسی ٹی۔وی چینل میں نوکری مل جائے۔ سیاسی سطح پر بھی ٹیلی ویژن چینلوں کی دھاک تھی۔ کچھ مقبول ٹیلی ویژن چینلوں اور اس سے وابستہ صحافیوں کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہونے لگا تھا کہ یہ کسی بھی حکومت کومستحکم یا غیر مستحکم کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔یعنی کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت بنا یا گرا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانے میں ٹیلی ویژن چینلوں کا اثر و رسوخ اپنے عروج پر تھا۔ یہ چینل رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
کہاجاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ کچھ برس تک یہ صورتحال برقرار رہی۔ رفتہ رفتہ یہ صورتحال معمول پر آئی اور ٹیلی ویژن چینلوں کا زور ٹوٹنے لگا۔ عوام کا ایک بڑا حلقہ ٹیلی ویژن کے سیاسی ٹاک شوز میں ہونے والی مار دھاڑ اور بد تہذیبی سے تنگ آکر ٹی۔وی چینلوں سے دور ہو گیا۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا کی آمد نے پوری کر دی۔ عوام کی اکثریت نے ٹی۔وی کے بجائے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے ٹی۔وی چینلوں کی اثر انگیزی کم ہونے لگی۔ آ ج کل ہم ایسی باتیں سنتے ہیں کہ اب نیوز چینلوں کا زمانہ تمام ہونے کو ہے۔ آنے والا دور سوشل میڈیا کا دور ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کیساتھ ساتھ خواص بھی سوشل میڈیا کا استعمال پسند کرتے ہیں۔
بلاشبہ سوشل میڈیا کی یہ خوبی دیگر تمام خوبیوں پر بھاری ہے کہ اس نے عام شہریوں کو اظہار رائے کے مواقع فراہم کر رکھے ہیں۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی اہمیت مستقبل میں بھی موجود رہے گی۔لیکن جس طرح ٹیلی ویژن چینلوں کی آمد کے بعد اخبارات اپنی جگہ پر موجود رہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ہوتے ٹی۔وی چینل بھی موجود ہیں اور آنے والے وقت میں بھی موجود رہیں گے۔ ہر میڈیم کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ کوئی نیا میڈیم یا پلیٹ فارم لوگوں کی زندگی میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے، لیکن کسی دوسرے پلیٹ فارم کی جگہ نہیں لے سکتا۔
یہی دیکھئے کہ برسوں پہلے کہا جاتا تھا کہ اب کتاب اور اخبا ر وغیرہ کا زمانہ لد گیا ہے۔ لیکن کتاب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے اور اخبار بھی باقاعدگی سے چھپتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال کئی چھوٹے بڑے کتاب میلے ہوتے ہیں۔ ان میں ہزاروں، لاکھوں شہری شریک ہوتے ہیں۔ بلامبالغہ لاکھوں کتب فروخت ہوتی ہیں اور کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اخبار اور اخباری صحافت بھی پورے طمطراق سے موجود ہیں۔ دنیا بھر میں اخبارات کی اپنی اہمیت اور اثر انگیزی ہے۔ کئی معتبر تحقیقی جائزوں اور رپورٹوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آج بھی خبر کے حصول کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ اخبار ہی ہے۔ یعنی ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کا ستعمال خواہ زیادہ ہے، لیکن اخبار میں چھپنے والی خبر سب سے زیادہ قابل اعتبار سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کے شعبہ صحافت پر نگاہ ڈالیے۔ انگریزی اور اردو کے کئی قومی اخبارات نہایت اہم تصور ہوتے ہیں۔ یہ اخبا ر عوام میں بھی مقبول ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والے، نامور ٹی۔ وی اینکر جو اپنے چینلوں کے پرائم ٹائم اوقات میں پروگرامز کی میزبانی کرتے ہیں، وہ بھی اخبارات میں کالم لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ چھپے ہوئے الفاظ کی اپنی اہمیت اور اثر انگیزی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال دن بند بڑھتا جا رہا ہے۔ہم لوگ اسے اپنے خیالات کے اظہار کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی ہمیں معلوم ہے کہ اس میں آنے والی زیادہ تر خبریں اور اطلاعات جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔
اخبار میں آج بھی تحقیقاتی خبریں اور رپورٹیں شائع ہوتی ہیں۔ یہ رجحان ٹی۔وی چینلوں میں نہیں ہے۔ اخبار ہماری معلومات اور ارتکاز میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اساتذہ اور گھر کے بزرگ نوجوانوں کو انگریزی اور اردو کی درستگی کیلئے اخبار پڑھنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اخبار پڑھنے سے ہمارے اردو اور انگریزی زبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں ملکی اور عالمی حالات سے آگہی ملتی ہے۔ نوجوان نسل پر لازم ہے کہ وہ کتب اور اخبار بینی سے رشتہ جوڑے۔ کتاب اور اخبار پڑھنے والا نوجوان کسی بھی روزگار، کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو جائے، اپنی معلومات اور ذخیرہ الفاظ کی وجہ سے وہ دیگر لوگوں سے مختلف دکھائی دے گا۔ آج کل ڈیجیٹل میڈیا کا زمانہ ہے۔ کتاب نے بھی ای۔ بک کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اخبار بھی ای۔ پیپر کی شکل میں دستیاب ہیں۔ آج کا نوجوان جو فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام وغیرہ پر روزانہ کئی گھنٹے ضائع کرتا ہے، وہ اگر کتاب یا اخبار پڑھنے کی عادت ڈالے تو اس کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اس ضمن میں اساتذہ کا بھی فرض ہے کہ اپنے شاگردوں کو کتاب اور اخبار کی طرف راغب کریں۔ لیکن اس کا کیا علاج جب استاد خود کتاب اور اخبار پڑھنے سے کوسوں دور ہو۔