ایئر ایوی ایشن اور انجینئرنگ آج کل پاکستان کے طلبہ کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہو رہی ہے اور تعلیمی ادارے اپنے پورٹ فولیو میں اس قسم کی تعلیم کو شامل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افراد اس میدان میں اترنے اور انجینئرنگ کے تعلیمی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اگر ایک طالب علم ایئر ایوی ایشن میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا مستقبل کس حد تک روشن ہوتا ہے شاید ہماری سوچ بھی نہ جائے اور ایوی ایشن کے لیے تیار کیے گئے نصاب کی بدولت طلبہ کی ذہنی استعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ایوی ایشن مینجمنٹ کے قابل طلبہ کے لیے سکوپ موجود ہے مگر افسوس کے پاکستان میں آج بھی بہت سے ایسے پائلٹ ہیں جو اس مقام پر نہیں جا سکے جتنی ان کی صلاحیت تھی، ایسا کیوں ہے؟ جتنی مشکل ایک پائلٹ کی پڑھائی ہوتی ہے اگر وہ بین الاقوامی ایئر لائن میں شامل ہو جائیں اور اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ملک کا نام خاصا روشن کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سی ایئرلائن مؤثر طریقے سے کام کر رہی ہیں جن کے ملازمین کی تعداد بھی کافی ہے مگر ایک بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ ایئرلائنز بند ہونے کی وجہ سے بہت سے ملازمین جو قابل تھے وہ بے روزگار بھی ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس وقت پاکستانی انٹرنیشنل ایئرلائنز کے علاوہ کئی پرائیویٹ ایئر لائنز ہیں جو ہاتھوں ہاتھ ایوی ایشن کے طالب علموں کو دینے کے لیے تیار ہیں مگر کم تنخواہ پر ایسا بھی کیوں ہے؟
ہم نے دیکھا ہے گزشتہ چند سال میں ایئر لائنز میں بہت سختی کر دی گئی ہے جب سے پاکستان میں ایک معاملہ اٹھا تھا پائلٹس کی جعلی ڈگری کا، جس سے پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے پاکستان کی ڈائریکٹ فلائٹس بھی کئی ممالک نے بند کر دی تھیں اور یہ پابندی ابھی تک عائد کر رکھی ہے جو میرے خیال سے اب ختم ہو جانی چاہیے۔ اب اگر دیکھا جائے تو پاکستانی پائلٹ کو اپنا معیار قائم کرنے میں بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے جن میں اب جعلی ڈگری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آہستہ آہستہ اس معیار کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے پرائیویٹ ایئر ایوی ایشن بہت کام کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اتفاق ہوا مجھے اپنا پروگرام کرنے کا کیونکہ عوام میں پائلٹس کی جعلی ڈگری کے کیس نے ایک بہت غلط تاثر پیدا کر دیا تھا تو ان حالات میں بطور صحافی میرا فرض بنتا ہے کہ اس خیال کو عوام کے ذہن سے نکالا جائے، جب میں نے پاکستان میں کام کرنے والے ایک ادارے ایئر ایگل ایوی ایشن کے ساتھ پروگرام کیا اور وہاں جا کر میں نے خود دیکھا کہ پائلٹ بننا آسان نہیں۔ ایئر ایگل ایوی ایشن اکیڈمی کی بنیاد 2013 میں وائس چیف آف ایئر سٹاف پاک فضائیہ کے سرپرستی میں ایئر ایگل پی اے ایف کے پراجیکٹ کے طور پر رکھی گئی تھی۔ اس ایوی ایشن اکیڈمی کا مقصد سٹیٹ آف آرٹ کے نصاب انتہائی تربیت یافتہ اور قابل اساتذہ جدید سہولیات اور آلات کے ساتھ ہوا بازی کے پیشہ ور افراد کو تعلیم و ترقی دینا ہے۔ یہ سرگرمیاں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مالی طور پر قابل عمل بنیادوں حفاظتی اور تربیتی ماحول میں کی جاتی ہیں اور جب تک ایک طالب علم اس سے متعلق پیپر پاس نہیں کر لیتا، ایئر ایگل ایوی ایشن جب تک تسلی نہ کر لے کہ ایک طالب علم اچھا پائلٹ ہے یہ ادارہ کبھی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتا۔
آج کل ایئر ایگل ایوی ایشن کے سربراہ خالد چیمہ ہیں جو یہاں چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے پر تعینات ہیں وہ ایئر فورس میں 32 سال خدمات سرانجام دیتے رہے اور اب پاکستانی نوجوانوں کو پائلٹ بننے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ جب ہماری گفتگو خالد چیمہ سے ہوئی انہوں نے بتایا کہ میں چاہتا ہوں پاکستان میں اس ادارے کو مزید ترقی دی جائے کیونکہ ایک پائلٹ کا مستقبل بہت شاندار ہوتا ہے اور میں اپنے ادارے میں طلبا کی نگرانی خود کرتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ جو طلبہ یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی محنت اور ان کے ماں باپ کا پیسہ ضائع نہ جائے وہ کچھ بن کر ہی نکلے اور الحمدللہ یہاں سے جانے والے پائلٹ آج بھی اچھی ایئرلائنز کے پائلٹس ہیں اور کامیاب ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہماری ملاقات یہاں کے گروپ کیپٹن چیف فلائنگ انسٹرکٹر ذوالفقار سے بھی ہوئی جو کہ اس ادارے کا اہم اثاثہ بھی ہیں۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے آگاہ کیا کہ کس طرح سے ایک پائلٹ کو پہلے ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے اڑان بھرنے کے لیے اور اس کی باقاعدگی سے میں خود نگرانی کرتا ہوں جہاں مجھے پائلٹ کی اڑان میں کمی دکھائی دیتی ہے تو اس کے انسٹرکٹر کو فوری طور پر آگاہ کرتا ہوں اور اس کی اس کمی کو پورا کرنے میں خود بھی اس کی مدد کرتا ہوں۔ آج جب آپ ایک ایوی ایشن کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس میں ایک اہم کردار ایک انجینئر کا بھی ہوتا ہے تو ہماری ملاقات چیف انجینئر کیپٹن ذوالفقار حسین سے ہوئی جنہوں نے جہاز کی تکنیکی خرابی اور باقی چیزوں کو چیک کرنا ہوتا ہے اور ایک پائلٹ کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ موسم کی خرابی میں جہاز کو کس طرح سے قابو میں رکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی تکنیکی خرابی نہ آئے اور جب چیف انسٹرکٹر موجود نہیں ہوتا تو اس کی جگہ ڈپٹی چیف فلائنگ انسٹرکٹر عباس مہر موجود ہوتے ہیں جو کہ اس ادارے میں دو ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں گراؤنڈ فلائنگ انسٹرکٹر اور ڈپٹی چیف فلائنگ انسٹرکٹر جو کہ بننے والے پائلٹ کا خود بھی چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں۔ جیسے یہ ادارہ کام کر رہا ہے اگر ایسے ہی ادارے کام کرتے رہے تو پائلٹس کی جعلی ڈگری جیسے اداروں سے پاکستان کو چھٹکارہ آرام سے حاصل ہو گا اور موجودہ وقت کی یہ خاصی ضرورت ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایئر ایوی ایشن دن بدن ترقی کر رہا ہے مگر ہم آج بھی اتنا پیچھے کیوں کھڑے ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں صرف سیاست کی جنگ رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ایسے کامیاب ادارے سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سمجھدار اور کامیاب لوگ ہیں جو ایئر ایگل ایوی ایشن میں کام کر رہے ہیں حکومت کو ان لوگوں پر اعتماد کر کے اس ادارے پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے جو کہ اہم ضرورت ہے۔ موجودہ وقت کی آنے والے نوجوان نسل کے لیے اس ادارے کو کامیاب بنانے کے لیے محنت کرنا ہوگی اور جب ہمارے پاس لوگ بھی موجود ہیں تو ہم پھر پیچھے کیوں؟