افغانستان میں طالبان کی غیرمتوقع، اچانک فتح نے دنیا بھر میں جو زلزلہ بپا کیا، اس کے آفٹر شاک (ضمنی جھٹکے) مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں۔ مغربی دنیا تو براہ راست متاثر ہونے کی بنا پر ابھی باہمی الزام تراشیوں، شکست کی ذمہ داری کسی کے سر تھوپنے کے لیے سروں کی تلاش کی ’کوکلا چھپاکی‘ میں لگی ہے۔ اسی سلسلے میں بحث مباحثے کرتے ڈچ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے استعفاء دے دیا۔ نیویارک ٹائمز نے کہا کہ ہم ابھی کئی نسلوں تک یہ بحث کرتے رہیں گے کہ آخر ہم یہاں کیوں پھنس گئے۔ انخلا میں دیر کیوں کی؟ (بالخصوص یہ سوچنے کی بات ہے کہ کابل ایئرپورٹ دلدل کیوں بن گیا!) اشرف غنی پر اب برس رہے ہیں۔ خلیل زاد کا کہنا ہے کہ یہ طے تھا کہ طالبان کابل شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔ اشرف غنی اچانک بلااطلاع بھاگ لیا! شہر اور پھر ملک بھر میں یکایک حکومتی خلا پیدا ہوگیا۔ اسے پُر کون کرے، اس پر طالبان نے معاہدے کی پاسداری میں امریکا سے پوچھا کہ کیا وہ کابل کا انتظام سنبھالے گا؟ بائیڈن نے صاف جواب دے دیا کہ ہم ایک منٹ مزید نہیں ٹھہریں گے۔ جو حواس باختگی امریکا پر طاری ہوچکی تھی اس کا منطقی نتیجہ یہی تھا! ان کا کہنا تھا کہ پولیس، افغان فوج کا نظام یک بیک ڈھے جانے کے بعد طالبان اور اسلامک سٹیٹ کی طرف سے ممکنہ حملے کا خدشہ رہے گا۔ سو خلا پر کرنے کو طالبان آگے بڑھے۔ حالانکہ ابھی چند دن پہلے ہی تو پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی سے طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی پر پوچھا گیا تو کربی نے پورے یقین سے کہا کہ نہیں! افغانستان کے پاس 3 لاکھ فوج، پولیس دونوں ہیں جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح! ڈھانچہ منظم ہے۔ وہ سب جو طالبان کے پاس نہیں ہے۔ ان کے پاس ایئرفورس تک نہیں ہے۔ اور پھر کربی کو شدید کرب سے گزرنا پڑا! جو طالبان کے پاس فتح کا فارمولا تھا افغان فوج اس سے محروم، سر پر پاؤں رکھ کر دوڑ گئی۔ یورپی یونین نے افغان بحران پر قرارداد پاس کی ہے: ’افغانستان سے مغربی فوجوں کا انخلا اجتماعی ناکامی ہے‘۔ یہ مہر خود ہی ثبت کردی۔
تہذیب تری دیکھ اندھیروں کی امیں ہے
’واللیل‘ سے ’والشمس‘ کے اٹھنے کی ادا دیکھ
تاہم ہر طرح یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ تحمل، حلم اور رواداری کی مثال پہلے صلاح الدین ایوبیؒ نے قدس کی فتح پر خونریز دشمن کے ساتھ حسن سلوک کی قائم کی تھی۔ اب اسی کو طالبان نے دہرایا ہے کہ فرار ہوتی دشمن فوج کو جو سہولت، تعاون فراہم کیا وہ بے مثل ہے۔ خود امریکا بھی جس کے اعتراف وتحسین پر مجبور ہوا۔ کون سی قیامت ہے جو اس فوج نے طالبان اور مسلمانوں پر 20 سال نہ ڈھائی تھی۔ اسلامی رواداری کی یہ نگاہ خیرہ کن مثال ہے جو غلبے کی صورت میں مغلوب کو دی گئی۔ ادھر 20 سال پاکستان میں رواداری کے جو مسلسل پہاڑے پڑھے پڑھائے مسلط کیے گئے، وہ غلامانہ چاپلوسی کی کریہہ منظر رواداری تھی جو مسلمان کا سر کفر کے آگے جھکانے کے لیے اختیار کی گئی۔
اس زلزلے کی لپیٹ میں آنے والے برطانیہ میں جھٹکے زیادہ محسوس کیے گئے ہیں۔ بورس جانسن برطانوی وزیراعظم کی اسلام دشمنی مسلمہ ہے۔ سو زہر اگلتے ہوئے مسلم خواتین (باحجاب) کو بینک ڈاکو اور لیٹر بکس قرار دیا۔ جو گلی محلے کے اوئے توئے کرنے والے چھوکروں کی زبان تو ہوسکتی ہے، ’برطانیہئ عظمیٰ‘ کے وزیراعظم کے لیے شرمناک ہے۔ (ایسی ہی برطانوی زبان ہمارے سیاست دان بھی روا رکھتے ہیں کیونکہ برطانیہ ان کا میکا ہے۔) برطانوی وزیر ثقافت ناڈین ڈور لیس نے نقاب پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسے قرون وسطی کا ڈریس کوڈ قرار دیا ہے۔ یہ دورے ان پر بالخصوص افغانستان میں یونیورسٹی کی طالبات کی بڑی تعداد کو باپردہ دیکھنے کے بعد پڑنے شروع ہوئے ہیں۔ حالانکہ ابھی پوری دنیا کورونا کے ہاتھوں نقاب پوشی پر تادیر مجبور رہی۔ ماسک نے پوری دنیا کے مرد وزن کو یکساں طور منہ چھپانے پر مجبور کیا۔ گرمی کی شدت میں عبایا اسکارف کا تمسخر اڑانے والے منحنی کورونا کے خوف سے پلاسٹک کے جبے پہنے بالٹیوں پسینہ بہاتے خلائی مخلوق بن گئے! پس ثابت ہوا کہ یہ نفسیاتی خلل کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام سے ضد اور چڑ کے مظاہر ہیں۔ یہی مرض ہمارے سیکولر طبقے کو بھی لاحق ہے جس میں ڈاکٹر پرویز ھود بھائی پیش پیش ہیں۔ اس طبقے پر اس خوف سے غشی کے
دورے پڑ رہے ہیں کہ اگر پاکستان ’طالبان پوزیٹو‘ ہوگیا تو ہم کہاں جائیں گے۔ افغان لبرل سیکولر تو C-17 امریکی جہاز پر ہی سہی گرتے پڑتے جیسے تیسے نکل گئے۔ ہم نے ان کے ڈھیروں سازندوں، گانے بجانے والے ثقافتیوں کو پناہ دے دی۔ لڑکیوں کی فٹ بال ٹیم کو مہمان بنالیا۔ یہ ہمارے ہاں اب 20 سالوں سے حیاشکن کھیلوں کا سلسلہ ہے۔ الپائن کلب نما، کھیل کے نام پر جوان لڑکیوں کو حیا سوز وڈیوز میں دیوار پر چڑھتے شرمناک مناظر کی گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ڈٹ کر حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ان کا کیا بنے گا۔ حال ہی میں ٹی وی پروگرام پر اعلیٰ تعلیم کے پرچارکوں نے مخلوط تعلیم کی بندش اور پردے پر خوب سینہ کوبی کی ہے۔ شریعت کا نفاذ پڑوسی ملک میں ہے، خفقان، خلجان، مالیخولیا ان پر طاری ہے۔ اس کا جواب اس مرتبہ ہم قرآن وحدیث کے حوالہ جات یا علمی عقلی دلائل سے دینے کی بجائے ایک عیسائی کھلاڑی کی زبان سے دلوا رہے ہیں۔
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں!
فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
موصوف امریکی کھلاڑی (کِک باکسر) ہیں جو چار مرتبہ چمپئین رہ چکے ہیں۔ اینڈریوٹیٹ۔ بزنس مین بھی ہے۔ اس وقت رومانیہ میں رہ رہا ہے۔ اس کی گفتگو جو اس نے ایک شو میں کی ہے ملاحظہ فرمائیے۔ یہ اصلاً تو طالبان کور شک آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بے اختیار بول اٹھے ہیں۔ اسے آپ مغرب کے دبے پسے مرد کی آہ سمجھیے جو آج کی مغربی عورت کے خناس کو بھگتنے کے بعد وہ کراہ رہے ہیں۔کہتے ہیں: ہمارے بہت سے مسائل جن کا سامنا آج مرد کر رہا ہے اسلام انہیں حل کردیتا ہے۔ میں مسلمان تو نہیں ہوں۔ ایک قدامت پرست عیسائی ملک میں رہتا ہوں۔ قدامت پرست عیسائی چرچ میں جاتا ہوں۔ چرچ کو ماہانہ 20 ہزار ڈالر چندہ دیتا ہوں۔ رومانیہ میں چرچ بہت مضبوط ہے۔ تاہم مجھے اگر کسی ایک مذہب کے لیے بازی لگانی ہو جیسے اسٹاک ایکس چینج میں لگاتے ہیں مستقبل کے لیے، تو وہ اسلام ہی ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمان کٹر اور عدم روادار، عدم برداشت رویے کے حامل (Intolerant) ہیں۔ یہ میں احتراماً کہہ رہا ہوں! اگر آپ روادار (مرنجاں مرنج) ہیں ہر بات کے لیے تو پھر آپ کا کوئی موقف ہی نہیں ہے جس پر آپ جم سکیں۔ (پروا نہیں کہ بیٹی دیوار پر کولہے مٹکاتی چڑھ رہی ہے یا پارٹنر کے ساتھ رہ بس رہی ہے۔ یا آپ کا عقیدہ للکارا جا رہا ہے۔) میں لندن بھر میں اگر ٹی شرٹ پہن کر نکل جاؤں جس پر لکھا ہو کہ (عیاذاً باللہ) ’حضرت عیسیٰؑ ہم جنس پرست تھے‘ تو کچھ بھی نہ ہوگا۔ کوئی مجھے کچھ نہ کہے گا لیکن اگر میں یہی کام مسلمانوں کے نبی کے ساتھ کروں، میں اسی سڑک پر مار دیا جاؤں گا! یہ ہے ان کے یقین (ایمان) اور احترام کا عالم اور میں ایسے لوگوں کا احترام کرتا ہوں جو اپنے عقیدے کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ صرف مسلمان اپنے مذہب کا دفاع کرتے ہیں۔ وہ کسی کو اس کا مذاق اڑانے نہیں دیتے، وہ تذلیل برداشت نہیں کرتے اور میں اسی چیز کا احترام کرتا ہوں، یہ کمال کی بات ہے! تیسری بات یہ ہے کہ دنیا کے بہترین ممالک میں سے آج مسلمان ممالک ہیں۔ وہ قطر، سعودی عرب اور دبئی کی مثال دیتا ہے۔ آپ 10 لاکھ ڈالر گود میں رکھ کر سو جائیں، سڑک کے بیچ، کچھ بھی نہ بگڑے گا آپ کا سعودی عرب میں۔ ان تینوں ممالک کا یہی حال ہے۔ وہ گاڑیاں، چابی اندر لگی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، وہاں اتنا تحفظ ہے۔ اور خواتین! تو ہر عورت شادی شدہ ہے۔ (مغرب اب اس تصور سے تہی دامن ہے اس لیے اس میں خبریت ہے!) ہر عورت اپنے شوہر کی فرمانبردار ہے! (اس فرمانبرداری کو بھی مغربی مرد ترستا ہے!) ہر عورت کے چار تا چھ بچے ہیں۔ بڑے خاندان! وہ سب مسائل جو ہمیں درپیش ہیں جن کے بارے ہم بات کرتے رہتے ہیں، ان کے ہاں اسلام کی بنا پر ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام میں تقسیم کار ہے ہر فرد کا کردار متعین، طے شدہ ہے۔ (ترس ترس کر) دوبارہ کہتا ہے کہ وہاں عورت مرد کی اطاعت کرتی ہے۔ خواتین کے بچے ہیں اور بڑے خاندان ہیں۔ اور وہ خوشی خوشی یہ سب کرتی ہیں! اسلام کی عورت دنیا کی ساری عورتوں سے زیادہ خوش وخرم ہے۔ ان کا پورا معاشرہ خوش رہتا ہے۔ وہاں آبادی بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایک بچہ پیدا کرنے کی بنا پر گھٹ رہی ہے۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔ شرح اموات کی نسبت سے یہ شرح پیدائش بہت ناکافی ہے۔میں ان کے جنگجو یانہ مزاج کابھی احترام کرتاہوں۔وہ اپنے دین سے کھیل نہیں کرتے.....تمہاری کویئ حدودوقیود نہیں ہیں۔تم اسلام کے آگے اپنا سب کچھ کھوچکے ہو۔‘ عیسایئ نوجوان کایہ تجزیہ چشم کشاہے اگرکویئ سمجھنا چاہے۔