منافقت کی سیاسی شطرنج……؟؟

10:46 AM, 26 Sep, 2021

تبدیلی کا نعرہ یا طعنہ پہلے پاکستان تحریک انصاف کے سر تھا اور تحریک انصاف نے اپنی سیاسی چال میں اس تبدیلی کو شطرنج کی بازی سے تشبیہ دی کہ جہاں حالات کے مطابق اور مہروں کی استعداد کے پیش نظر چالیں بدلنی پڑتی ہیں۔ لیکن پھر سب سیاسی پارٹیاں اس رنگ میں رنگ گئیں اور ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کے کیک سے حصہ بقدر جثہ لینے کے لیے شطرنج کی بساط کا مہرہ بننے کو تیار ہو گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی اس رنگ میں رنگ گئیں اور تو اور مولانا فضل الرحمان نے بھی خود کو ڈیل آفر ہونے کا اعتراف کر لیا۔ کچھ لوگ سیاست شطرنج کے کھیل سے تشبیہ دیتے ہیں اور کچھ دل جلے منافقت کی شطرنج سے۔ شطرنج میں سب سے اہم حکمت عملی اور صحیح مہرے سے بروقت چال اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن کچھ سیاسی جماعتیں اتنی جلد باز ہیں کہ اپنے تمام مہرے بازی پلٹنے کے چکر میں میدان میں اتار دیتے ہیں اور اس جلد بازی میں وہ بازی تو کیا جیتتے خود اپنے مہروں کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ یہی غلطی مسلم لیگ ن سے ہوئی جب وہ سیاست کے ایک پیادے کی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ان کے خاندان کے ذاتی مراسم کو استعمال کر کے اپنے لیے ریلیف حاصل کرنے کی غلطی کر بیٹھی۔
اور تو اور مریم نواز اپنی پارٹی کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف کی ایکسٹینشن کی حمایت سے ہی مکر گئیں۔ یہ بھی بھول گئیں کہ ان کی اپنی جماعت نے ان کے والد میاں نواز شریف کی اجازت سے اس ترمیم کی حمایت کی تھی۔ گو کہ انہوں نے اس بیان کی وضاحت کر دی لیکن بقول نوابزادہ نصراللہ کے سیاستدان کے منہ سے ایک بار جو بات نکل جاے اس کی وضاحت اس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ 
چوہدری نثار نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں اس سیاسی شطرنج کو خوب خاکہ کھینچا اور پیپلز پارٹی کے شدید مخالف سمجھے جانے کے باوجود سابق صدر آصف علی زرداری کے انداز سیاست کو داد دی۔ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی اور لا محالہ مسلم لیگ ن تیسرے نمبر پر آئی۔ 
ایک دو سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کورے جواب کے بعد ہرکارے بدلے گئے لیکن اسٹیبلشمنٹ کا در نہیں چھوڑا گیا کیونکہ ماضی کے تجربات کے پیش نظر سیاسی خیر اسی در سے ملے گی۔ میرا اشارہ مسلم لیگ ن کے محمد زبیر کی طرف ہے جو چیف آف آرمی سٹاف سے ذاتی دوستی کے زعم میں قیادت کی اجازت سے ملاقات کر بیٹھے اور قیادت کو یہ تاثر دیا کہ ڈیل اب ہوئی کہ تب ہوئی۔ ایسا ہونہ سکا لیکن اس ایک ملاقات نے محمد زبیر کے سیاسی کیرئیر کی روٹیاں تا حیات پکی 
کر دیں۔ قربانیاں دینے والوں میں خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، رانا تنویر حسین جیسے سینکڑوں لوگ پچھلی صفوں میں پھینک دیے گئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے وہی کارکن آگے آسکتاہے جو قیادت کو بھائے۔ مسلم لیگ ن کے اندر بیانیے کی جنگ نے کارکنوں کو پل صراط پر ڈال دیا ہے کہ کس طرف کو جھک کر اسے پار کریں کیونکہ ایک غلط قدم انہیں قومی سیاست میں پاکستان قومی اتحاد کا رفیق باجوہ بنا سکتی ہے۔ 
کچھ مسلم لیگیوں کو مولانا فضل الرحمان کی مسلم لیگ ن میں حد سے زیادہ دراندازی بالکل نہیں بھاتی اور کہا جاتا ہے جتنی مولانا کی مسلم لیگ ن میں سنی جاتی ہے اتنی تو پارٹی صدر شہباز شریف کی بھی نہیں۔ لیکن انہی کالموں میں میں نے ذکر کیا تھا کہ مسلم لیگ ن کو جب بھی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے تو وہ مولانا فضل الرحمان کو بھی بھول جائے گی۔ اور ایسا ہی ہوا انتخابی اصلاحات کمیٹی میں مسلم لیگ کی شرکت پر مولانا بہت تلملائے لیکن اس تحریر کے آنے تک ان کی لندن سے بھی شنوائی نہ ہو سکی۔ دیکھیں اب پی ڈی ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن مولانا سیانے آدمی ہے وہ پی ڈی ایم کی دم سے اس وقت تک لٹکے رہیں گے جب تک انہیں جھٹک نہیں دیا جاتا۔ مسلم لیگی دوست اس حوالے سے میرے ایک کالم ”داؤ ماری کی سیاست“ پر ناراض بھی ہوئے جس میں میں نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل اور وقت پڑنے پر اپنے مفاد کی خاطر ہر بوجھ سے جان چھڑانے کی بات کی تھی۔ لیکن میرے اس سوال کا جواب نہ دے سکے اگر محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات کامیاب ہو جاتی تو متحدہ اپوزیشن یا پی ڈی ایم کا تصور کیا جا سکتا تھا؟ لیکن کمال دیکھیں وہی محمد زبیر اب بھی مسلم لیگ ن میں ہیں اور ان سے جواب طلبی بھی نہ کی گئی۔ بے چارے جاوید لطیف کو تو نوٹس ہو گیا کیونکہ وہ ایک سیاسی کارکن ہے اور محمد زبیر کی طرح کسی ریٹائر جنرل کا بیٹا نہیں دوسرے اس کا کوئی بھائی نہ تحریک انصاف میں ہے۔ سیاسی کارکن کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے حد سے گزر جاتے ہیں یہی غلطی جاوید لطیف سے ہوئی۔
مسلم لیگ ن کا ایک دھڑا تو ببانگ دہل اسٹیبلشمنٹ کے لتے لیتا رہا لیکن دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا ایک آزمایا ہوا دھڑا اسٹیبلشمنٹ کو باور کراتا رہا کہ فکر نہ کریں ہم ہیں نا۔ اسٹیبلشمنٹ شاید مسلم لیگ کے اس دھڑے کو ایک مہرے سے زیادہ اہمیت نہ دے کیونکہ مسلم لیگ ن کے اندر کی لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف گروپ زیادہ طاقتور ہے اور یقیناً اس کے سامنے پارٹی صدر شہباز شریف کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ مفاہمتی گروپ یا شہباز شریف کے حامی اراکین نے میڈیا پر آ کر بھی شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے حق میں بات کی اور شہباز شریف نے بھی پارٹی کے تنظیمی اجلاسوں کے بائیکاٹ کر کے ناراضگی کا اظہار کیا۔اس کا صلہ یہ ملا کہ شہباز شریف کو اگلے تنظیمی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے دی گئی۔ لیکن بقول شہباز شریف گروپ کے یہ شرکت محض لالی پاپ تھی تا کہ میڈیا اور مخالف آوازوں کو لگام دی جا سکے۔ ایسا لگ بھی رہا ہے کیونکہ ایک اجلاس کے بعد شہباز شریف نے کسی دوسرے اجلاس میں شرکت کی نہ ہی انہیں مدعو کیا گیا۔ کچھ سیاسی پنڈت مسلم لیگ ن کے دوہرے بیانیے کو "Bad Cop Good Cop" کی حکمت عملی سے موسوم کرتے ہیں لیکن ان کے لیے عرض ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع ہماری سوچ سے بھی وسیع ہیں اور ان سب پر ان کی بھی گہری نظر رہتی ہے۔ پھر ہر پارٹی میں ان کی پہنچ ہے۔ جاوید لطیف نے پارٹی کے کچھ ایسے ہی رہنماؤں پر نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہونے کا الزام لگایا لیکن پارٹی قیادت نے ان کے خلاف سخت ایکشن تو کجا رسمی کاروائی پر ہی اکتفا کیا۔ جاوید لطیف اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور مفاہمتی گروپ کو گاہے بگاے نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اپنے سیاسی کارڈ دانشمندی سے کھیل رہے ہیں۔ سیاست شطرنج کا کھیل ہے جس میں ایک غلط چال سے مات ہو سکتی ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ماضی کی طرح آصف زرداری سے بھی غلطی ہو جاے لیکن وہ اپنے کارڈ سینے سے لگاے چال کے لیے اچھے وقت اور مخالفین کی بری چال کا انتظار کر رہے ہیں۔ درون پردہ نجانے کیا صورتحال ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی کو بطور ایک سٹیک ہولڈر کے منوانے پر تیار ہو گئے ہیں۔
البتہ مولانا فضل الرحمان اس کھیل میں ایک بار پھر تنہا اور خسارے میں رہ گئے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی اتحادی مسلم لیگ ن نے بھی انتخابی اصلاحات کے معاملے پر ان سے دوری اختیار کر لی ہے۔
وطن عزیز کی سیاست جس تیزی سے کروٹیں لے رہی ہے صبح کا بیانیہ شام کو تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگلا سال الیکشن کی تیاریوں کا ہے جس میں نئے اتحاد بنیں گے نئی صف بندیاں ہوں گی اور اس کھیل میں اگر کوئی انہونی نظر آے تو اسے ہماری سیاسی منافقت کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیجیے گا۔ کیونکہ سیاستدانوں کا مفاد صرف اقتدار ہے چاہے جس قیمت پر ہو۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔

مزیدخبریں