مجھے چھ برس پہلے کاوقت یاد آ گیا جب نواز شریف حکومت نے پی ٹی آئی کے جھانسے میں آ کے حوثی قبائل کے معاملے پر اپنے دوست سعودی عرب کو غیرجانبداری کے نام پر دھوکا دیا تھا۔ پی ٹی آئی اپوزیشن کی جماعت تھی اور وہ پاکستان ہی نہیں سعودی حکمرانوں کے خلاف بھی اپنے ٹرولز سے توہین آمیز اور طنزیہ ٹرینڈ چلواتی تھی، اس کے سربراہ سعودی عرب سمیت دیگر دوست ممالک کے سربراہوں کے خلاف کھلم کھلا تقاریر کرتے تھے کہ اسی دوران حوثی قبائل والا تنازع پیش آ گیا۔ سعودی حکمران بجا طور پر امید رکھتے تھے کہ پاکستان کا وزیراعظم ان کے ساتھ کھڑا ہوگا، ان کی مدد کے لئے فوج بھیجی جائے گی کہ سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کی تھی بلکہ وہ نواز شریف کی جان بچانے کے لئے فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے والے دوست تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف کی طرف سے پھانسی کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے نواز شریف کو سرور پیلس میں شاہی مہمان بنا لیا تھا اور جہاں وہ برس ہا برس مقیم رہے تھے۔ مجھے یہ واضح کرنے میں بھی عار نہیں کہ نواز شریف کو پناہ دینے کے لئے قطر کی حکومت نے بھی اپنا کردارادا کیا تھا اوراس کے لئے شریف فیملی کی خواتین نے خصوصی مدد مانگی تھی مگر نواز شریف نے سعود ی عرب کی طرف سے مدد کی اپیل کے جواب میں پی ٹی آئی کے سیاسی و پارلیمانی دباؤ کو بنیاد بناتے ہوئے صاف جواب دے دیا جو سعودی عرب کے لئے خاصا ’ایمبیریسنگ‘ تھا۔ مجھے یہ نتیجہ دینے میں بھی عار نہیں کہ نواز شریف نے اس حرکت کی بہت بڑی قیمت ادا کی جب قطر کے حکمرانوں نے موصوف کی بے وفائی اور کوتاہ نظری کا بدلہ چکایا اور نواز شریف پانامہ کے کیس میں ’اقامہ‘ پر نااہل ہو گئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس صورتحال میں سعودی حکومت نے امام کعبہ حضرت خالد الغامدی کو اپنا عوامی سفیر بنا کے پاکستان بھیجا۔ میری محترم اسعد عبید کی دعوت پر ان سے جامعہ اشرفیہ لاہور میں ملاقات ہوئی۔ میں عربی میں گفتگو کی اہلیت نہیں رکھتا مگر میں نے اردو میں اپنا دل کھول کے سامنے رکھ دیا کہ میں پاکستانی عوام کے ایک نمائندہ صحافی ہونے کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنے سعودی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ کا فیصلہ اپنی جگہ پر مگر میں اس کو برملا غلط بھی کہتا ہوں اور نامناسب بھی۔ مجھے یاد ہے کہ محترم المقام امام کعبہ نے میرے دنوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور یوں خوش ہو کر ہنسے کہ وہ خوشی اور ہنسی ان کے اندر سے پھوٹ رہی تھی۔ مجھے لگا کہ میں نے کچھ ڈیمیج کنٹرول کر لیا ہے۔میری نظر میں خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کے تین اصول ہوتے ہیں، پہلا بنیادی اصول ہے ہمارا قومی مفاد، دوسرا اصول ہے ہمارا قومی مفاداور تیسرا اور حتمی اصول ہے ہمارا قومی مفاد۔یہ سب مجھے اس وقت یاد آیا جب میں نے بڑی صلاحیتوں کے بجائے محض بڑے معاوضے والے اینکر کی ایک یوٹیوب ویڈیو دیکھی جس میں ہر مشکل وقت میں ساتھ دینے والے چین کو ٹارگٹ کیا گیا، اس کانشانہ بجلی پیدا کرنے والے وہ منصوبے ہیں جو سی پیک کے تحت لگائے گئے۔ آج جب ہمارے گھروں میں پوری بجلی آ رہی ہے، لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کمانے والے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کے اس دور میں کئے گئے معاہدوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جب مشرف صاحب کے دور کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں لوڈشیڈنگ نے زور پکڑا اور زرداری صاحب کے دور میں لاہور جیسے شہر میں بارہ، بارہ اور سولہ، سولہ گھنٹے تک پہنچ گئی۔ کراچی سے فیصل آباد اور نوشہرہ تک ہزاروں کارخانے بجلی نہ ہونے کی وجہ بند ہو گئے۔ یہ نوازشریف حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا کہ توانائی کے اس بحرا ن کو ختم کیا جاتا۔ میں ذاتی طور پر اس امر کا گواہ ہوں کہ اس دور میں جب کوئی انٹرنیشنل ٹینڈر دیا جاتا تھا تو عالمی ادارے اس ٹینڈر کی کاپی تک نہیں لیتے تھے یعنی وہ پاکستان کی ریاست کی ساورن گارنٹی کی پیشکش کے باوجودہمارے ہاں سرمایہ کاری کی خواہش تک ظاہر نہیں کرتے تھے۔ ایسے میں وہی چین کام آیا جس نے ہماری دہشت گردی کے معاملے پربھی جنرل اسمبلی سے ایف اے ٹی ایف تک ہر جگہ مدد کی،کیا میں وہ نام بتاؤں جن کے ناموں کے ساتھ ہمارے خلاف قراردادیں پیش کی گئیں اوروہ چین نے ویٹو کیں؟
اس دنیا میں دوست بہت مشکل سے ملتے ہیں اور ہمیں یہ کمال حاصل ہے کہ ہم انہیں گنوانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کا ریکارڈچین کے حوالے سے پہلے ہی بہتر نہیں ہے۔ اس پارٹی کے دھرنوں کی وجہ سے سی پیک کا آغاز تاخیر کا شکار ہوا، چین کے صدر کے دورے کی آمد ملتوی ہوئی۔اس پارٹی کی حکومت آنے کے بعدسی پیک پر عملدرآمد کے حوالے سے ہزاروں شکایتیں ریکارڈ پر آئیں اور سمجھا یہ جا رہا ہے کہ سی پیک ہماری بجائے ایران اور افغانستان کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔اب جناب عمران خان کے ایک ممدوح کی اردو میں ویڈیو کے ذریعے چین سے معاہدوں پر قابل اعتراض مواد جاری کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر یہ نواز شریف اور شہباز شریف کے کئے ہوئے معاہدوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہے مگر اس کا دوسرا فریق چین ہے۔ یہ بھی سمجھا جا رہا تھا کہ اردو میں ا یک ویڈیو جاری کروا کے اورا س کی پروموشن سے ہم سیاسی فائدہ حاصل کر لیں گے مگر چین کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی کہ اس پر معاہدوں کے ذریعے ناجائز منافع خوری اور لوٹ مار جیسے بالواسطہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں مگر اب سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں چین ہی نہیں بلکہ افغانستان نے بھی اپنی اردو سروس شروع کر رکھی ہے۔ میں چین جیسے دوست سے عوامی معافی مانگتے ہوئے اپنے دوستوں کو دو چیزوں پر وضاحت دینا چاہتا ہوں کہ جب پوری دنیا سے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے بھاگ رہے تھے تو اس وقت چین نے سرمایہ کاری کی اور ہر سرمایہ کاری منافعے کے لئے ہی ہوتی ہے سو چینی سرمایہ کاروں کے منافعے کو بھی یقینی بنایا گیا۔اب دوسرا سوال یہ ہے کہ بجلی ہمارے لئے سرپلس ہو گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ معاہدے کر رہے تھے تو ہماری جی ڈی پی گروتھ پانچ اعشاریہ آٹھ تھی۔ خیال تھا کہ ہم اگلی پارلیمانی مدت میں آٹھ سے نو کی شرح تک پہنچ جائیں گے اور اس تیز رفتار ترقی میں اس بجلی کی کھپت ہوگی لیکن موجودہ حکومت نے کورونا سے پہلے ہی پانچ اعشاریہ آٹھ کو ایک اعشاریہ پانچ تک ریورس گیئر لگا دیا اور کورونا کے بعد منفی چار پر پہنچ گئے۔ اب اگر یہ بجلی سرپلس ہو گئی ہے تو اس میں نوازلیگ کی حکومت یا چین کا قصورنہیں بلکہ موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کا ہے جس نے ترقی کا پہیہ چلنے سے روک دیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ نے اپنی گاڑی کو کراچی لے جانے کے لئے پٹرول خریدامگر ہڈحرامی کرتے ہوئے گھر آ کر سو گئے تو آپ کیا پٹرول پمپ کے مالک کو برابھلا کہیں گے کہ اس نے آپ کو پٹرول کیوں دیا؟
ایک سیاسی گروہ کی طرف سے سی پیک کے بعد بجلی کے کارخانوں کو ٹارگٹ کرنا انتہائی تشویش ناک اور خوفناک ہے۔ میں چین کے دوستوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ان کے ممنون اور شکرگزار ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ہمارے کام آئے۔ ہمارے اندھیروں میں روشنیاں بھریں اور ہمیں ہماری معاشی زندگی کی امید دی۔ مجھے ان سے اس زہریلے پروپیگنڈے پر دل کی گہرائیوں سے معافی مانگتے ہوئے کہنا ہے کہ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں مگر پاک چین دوستی ایسے وقتی مفاداتی گروہوں کے اعتراضات سے بالاتر ہے۔ کچھ بندر کوہ ہمالیہ پر چڑھ کر اسے گرانا چاہتے ہیں، کچھ کچھوے سمجھتے ہیں کہ وہ سمندر کوپاٹ لیں گے اور کچھ زہر اگلتی زبانیں سمجھتی ہیں کہ وہ شہد کو کڑوا کر دیں گی، ایسا نہیں ہوگا اور ہم چین جیسے بہترین اور مخلص دوست سے کبھی محروم نہیں ہوں گے، ان شاء اللہ۔