اسلام آباد :دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا کو امن اور انصاف دینے کیلئے 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک چارٹر کے ذریعے جموں اور کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل کو فروغ دینے کے پابند ہیں۔
دسمبر 1947 میں ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مدد طلب کی۔رپورٹ کے مطابق 1948/49 میں UNSC نے قراردادیں منظور کیں جن میں جنگ بندی اور رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا تاکہ کشمیریوں کو پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرنے دیں۔جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47 (1948) اور اس کے بعد کی قراردادوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان قراردادوں میں جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں نے ان قراردادوں کو قبول کیا تھا۔
بتایاجاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت دونوں فریق قراردادوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔78 سالوں سے بھارت نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔1989 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس کے وحشیانہ جبر کے نتیجے میں 100,000 سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق5 اگست2019 سے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے لیے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کیے ہیں جسے اس کے انتہا پسند بی جے پی رہنماؤں نے "حتمی حل" کا نام دیا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 122 (1957) میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات ریاست کا درست اختیار نہیں ہو سکتا۔
5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت کی طرف سے تمام یکطرفہ اقدامات کو غیر قانونی اور کالعدم تصور کیا گیا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام آزادی اور خود ارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 79ویں UNSG کے اجلاس میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جموں و کشمیر کے تنازع کا حل جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے حصول کے لیے ضروری ہے۔تنازعہ کے حوالے سے بات چیت کے لیے حالات پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جائیں۔ خطے میں آبادیاتی تبدیلیوں کو نا صرف روکا جائے بلکہ ان کو ریورس بھی کرے۔ اس کے ساتھ 5 اگست 2019 سے کیے گئے غیر قانونی یکطرفہ اقدامات کو منسوخ کرے۔
اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک چارٹر کے ذریعے جموں اور کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل کو فروغ دینے کے پابند ہیں۔پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر میں بیان کردہ تمام طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اس مقصد کو فعال طور پر فروغ دے گا بشمول آرٹیکل 33، 34 اور 99۔
رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر نے 2018 اور 2019 میں دو رپورٹیں جاری کیں جن میں بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا اور انکوائری کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ۔کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کے مستقل ممبران مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
بھارت کے پاس IIOJK میں اپنے قبضے اور نسل کشی کا جواز پیش کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جبکہ پاکستان کے پاس تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کیس کی پیروی کرنے کے لیے تمام قانونی بنیاد اور جواز موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کشمیر کا پرامن حل ہی خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ ہے۔