غزہ: خیراتی ادارے آکسفیم نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے علاقے کو خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی سپلائی منقطع کرنے کے بعد بھوک کو "جنگ کے ہتھیار" کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
آکسفیم کا کہنا ہے کہ مکمل محاصرے کے بعد سے صرف دو فیصد خوراک غزہ میں داخل ہوئی ہے۔خوراک کے فوری بحران پر قابو پانے کے لیےغزہ تک خوراک پہنچانے کے لیے روزانہ تقریباً 104 ٹرک درکار ہوں گے۔
آکسفیم کی مشرق وسطیٰ کی علاقائی ڈائریکٹر سیلی ابی خلیل نے کہا کہ صورتحال بہت خوفناک ہے، انسانیت کہاں ہے؟ پوری دنیا دیکھ رہی ہے لاکھوں شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دی جا رہی ہے، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ عالمی رہنما صرف دیکھتے رہنا جاری نہیں رکھ سکتے، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کام کریں اور ابھی عمل کریں۔
سیلی ابی خلیل نے مزید کہا کہ ہر روز، صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔ بچوں کو مسلسل بمباری سے شدید صدمے کا سامنا ہے۔ ان کے پینے کا پانی آلودہ ہے اور جلد ہی خاندان انہیں کھانا کھلانے کے قابل نہیں ہو ں گے۔ غزہ والوں کو مزید کتنا سہنا پڑے گا؟
That's still the reality for millions of people despite limited humanitarian aid arriving in Gaza. Most have little to no food, water, shelter, electricity or fuel. Nowhere is safe. Sign the petition. Call for a ceasefire now: https://t.co/AB2WJngyuj pic.twitter.com/rcXgeLXccq
— Oxfam (@oxfamgb) October 24, 2023
غیر سرکاری تنظیم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) اور رکن ممالک سے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کےلیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ تمام ضروری خوراک، ایندھن، پانی اور طبی سامان کی فراہمی کی جا سکے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ حماس کا صفایا کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اس کے 2.3 ملین لوگوں کو مسلسل بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 6 ہزار 500 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے آرمی ریڈیو کے مطابق زمینی افواج نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے مقصد سے نسبتاً بڑی کارروائی کی۔ کل رات قوم سے براہ راست ٹیلی ویژن خطاب میں بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل زمینی حملے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی بمباری سے اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد 6 ہزار546ہوگئی، جن میں 50 فیصد سے زائد بچے اور خواتین ہیں۔
فسلطینی وزارت صحت کے مطابق 24 گھنٹوں میں اسرائیلی بمباری سے 344 بچوں سمیت 756 فلسطینی شہید ہوئے جس کے بعد شہید فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 6 ہزار 546 ہوگئی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں شہید فلسطینیوں میں 2 ہزار 704 بچے بھی شامل ہیں، اسرائیلی بمباری سے زخمی فلسطینیوں کی تعداد 17 ہزار 439 ہے ۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری سے 900 بچوں سمیت 1600 لاپتا افراد کی اطلاع ملی ہے، خدشہ ہے کہ لاپتا افراد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فضائی حملے میں الجزیرہ عربی کے غزہ کے بیورو چیف وائل دحدوح کی اہلیہ، بیٹا، بیٹی اور نوزائیدہ پوتے وسطی غزہ میں ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اب 1200 سے زائد افراد کو حراست میں لے رکھا ہے۔
غزہ کے فلسطینی علاقے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیل اور حماس کے تنازع پر کارروائی کرنے میں ایک بار پھر ناکام رہی۔یاد رہے کہ روس کی قیادت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد جس میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ناکام ہو گئی تھی۔ روس کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے مسودے کی چین، روس، امارات اور گبون نے حمایت کی جبکہ امریکا اور برطانیہ نے مخالفت کردی۔
دوسری طرف گزشتہ روز امریکی ایوان نمائندگان نے حماس کیخلاف جنگ میں اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور کرلی گئی۔