ارشد شریف کا بہیمانہ قتل

ارشد شریف کا بہیمانہ قتل

ارشد شریف ہمارے ہم وطن، صحافی بھائی تھے انہیں کینیا میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا یہ ہمارے لئے ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ ہمارے ہاں اندرون ملک صحافیوں کو مارنا، پیٹنا اور کبھی کبھار مار ڈالنا معمول کے واقعات ہیں لیکن کسی معروف صحافی کا اس طرح بیرون ملک مار دیا جانا، نہ صرف قابل افسوس بلکہ انتہائی غیرمعمولی واقعہ ہے پاکستان جس طرح کے حالات سے گزر رہا ہے، یہاں جس طرح سیاست کی جا رہی ہے، سیاست تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے ہو چکی ہے اور جس طرح ففتھ جنریشن وار ہم پر مسلط کر دی گئی ہے، جس طرح ہماری معیشت شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے ایسے حالات میں ارشد شریف جیسے معروف صحافی کا اس طرح کے مشتبہ حالات میں مارا جانا، معاملات میں مزید بگاڑ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ارشد شریف کو جن حالات میں ملک چھوڑنا پڑا جس طرح اس کے اپنے ادارے (ٹی وی چینل) نے اس سے اعلانِ لاتعلقی کیا وہ بھی ایک اہم معاملہ ہے ہمیں ان معاملات پر بھی غور کرنا چاہئے جن کے باعث ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اور وہ یو اے ای منتقل ہوئے۔ پھر انہیں وہاں سے بھی نکلنے پر مجبور کر دیا گیا ہمیں ان حالات کا بھی جائزہ لینا چاہئے ارشد شریف ہماری صحافتی دنیا کا ایک اہم اور منفرد نام تھا اسے اپنے ملک سے نکلنا پڑا۔ بھاگنا پڑا۔ کیوں؟ پھر ہمیں ان معاملات کا بھی پتہ چلانا چاہئے جن کے باعث وہ کینیا جانے پر مجبور ہوئے اور سب سے اہم وہ مشکوک واقعات جو ان کی ہلاکت پر منتج ہوئے کا جائزہ ہی لینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کی کھوج لگانا ا ور قوم کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم پہلے کی طرح معاملات کو قالین کے نیچے دفن کردینے کی پالیسی پر گامزن رہیں گے تو معاملات میں شدید اور ناقابل برداشت بگاڑ پیدا ہو گا۔ پاکستان جن حالات کا شکار ہے انہیں دیکھتے ہوئے اب اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس سانحے کی بے لاگ تحقیق کی جانی چاہئے اور قوم کو آگاہ کیا جائے۔
اس حوالے سے دو اہم پوائنٹ ہیں ایک کینیا میں وقوعہ کی انکوائری کا اہتمام ہونا چاہئے۔ ویسے کینیا ایک لا لیس ملک ہے وار لارڈز اور ڈرگ مافیا کی حکمرانی ہے سول جسٹس عام ہے لوگ خود ہی سڑک پر، گلی محلے میں ملزم کو مجرم قرار دے کر خود ہی سزا دے دیتے ہیں۔ کینیا میں قانون کی حکمرانی کمزور ہے وقوعہ مکمل طور پر مشکوک نظر آتا ہے 9 گولیاں چلیں کسی اور کو نہیں صرف ارشد شریف ہی کو لگی اور وہ بھی سر میں لگی اور پھر موقع پر ہی ہلاکت ہو گئی۔ کینیا پولیس کا ابتدائی بیان بھی ایسا ہے کہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے ضرورت اس بات کی 
ہے کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ کینیا میں ہونے والے سانحے کی بے لاگ تحقیق ہو اور اسے عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ دوسری طرف اس بات کی تحقیقات کا اہتمام بھی کیا جائے کہ وہ کون سے حالات تھے جن کے باعث ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا؟ انہیں ان کے ادارے نے نوکری سے کیوں نکالا، ارشد شریف کے صدر مملکت کو لکھے گئے خط کے حوالے سے بھی حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔
سب سے اہم بات ریاست اور ریاستی اداروں بالخصوص فوج پر تنقید کرنے کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لینا ضروری ہے اس بارے میں شاید دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں کہ فوج کو سیاست میں دخل انداز نہیں ہونا چاہئے۔ حالات کچھ بھی ہوں حکمرانی عوام کا حق ہے انہیں یہ حق حکمرانی آزادانہ اور منصفانہ طور پر استعمال کرنے دیا جانا چاہئے۔ یہ بات اب پایہ حقیقت کو پہنچ چکی ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کی جڑ یہی مسئلہ ہے کہ حق حکمرانی کس کا ہے؟ فوج یہ سمجھتی ہے کہ اس کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت نہیں ہے بلکہ سرحدوں کے اندر ہونے والے معاملات کی نگرانی اور نگہبانی بھی ہے قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق فوج جب چاہتی ہے اور جیسے چاہتی ہے سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے۔ اس بات کا اعتراف کچھ روز قبل ہمارے سالارِ اعلیٰ نے سینئر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں بھی کیا ہے کہ انہیں نوازشریف کی حکومت ختم کرنے کا افسوس ہے، عمران خان کو انگلی پکڑکر چلاتے رہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اعترافِ حقیقت ہے ایسی حقیقت جو 1958 میں جنرل ایوب کے مارشل لا سے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گزری ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران سوشل میڈیا/ ڈیجیٹل میڈیا کے فروغ کے باعث ابلاغ کی وسعت اور قوت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے جو بات کچھ عرصہ پہلے بند کمروں میں کہی اور سنی جاتی تھی اب کھلے عام ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا رہی ہے۔ سنی جا رہی ہے۔ فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے باتیں بلندآہنگ میں کی جا رہی ہیں۔ نوازشریف کی اقتدار اور سیاست سے رخصتی کے بعد، ”مجھے کیوں نکالا“ کے بیانیے نے فوج کے کردار پر سوالیہ نشان لگایا تھا پھر نوازشریف نے لندن میں بیٹھ کر گوجرانوالہ کے جلسے میں جرنیلوں کا نام لے کر تنقید کی تھی عمران خان نے تو تمام حدودوقیود کو پامال کرتے ہوئے فوج پر تنقید کو زبان زدعام کر دیا ہے سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ جلسے جلوسوں میں فوج پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ جیسے فوج کا سیاست میں عمل دخل غلط ہے بالکل اسی طرح فوج کے خلاف ایسا طرز عمل قابل مذمت ہے سیاست کی آڑ میں فوج کو نشانہ بنانا ”ففتھ جنریشن وار“ کے اہداف پورے کرنے کے مترادف ہے۔ دشمن ہمارے خلاف برسرپیکار ہے عوام اور ریاست اور فوج کے مابین نفرت کے بیج بو کر پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے فوج کے خلاف ہمارا ایسا طرزعمل دشمنوں کے عزائم کی تکمیل میں ممدومعاون ثابت ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور ڈائیلاگ کے ذریعے ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے جو نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہمارے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری ہے۔
ڈیجیٹل/ سوشل میڈیا دور حاضر کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس کی افادیت اور اثرپذیری کے بارے میں بھی دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے اوامر و نواہی کی بابت بات کی جانی چاہئے تاکہ اس کی حدود کا تعین کیا جا سکے۔ مقصد اس کی آزادی پر قدغن لگانا نہیں بلکہ اسے قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ ہم جتنا جلدی ایسا کر لیں گے اتنا ہی فائدہ ہو گا۔ اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کر کے افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات جلد طے کر لینا ضروری ہیں۔

مصنف کے بارے میں