روس کے مایہ ناز ناول نگار میکسم گورکی کا ایک شہرہ آفاق ناول ”دی مدر“ ہے۔ اس میں 19ویں صدی کے روس کا ذکر ہے جب زار بادشاہوں سے لوگ تنگ آگئے تھے اور بیداری کی تحریک شروع ہوا چاہتی تھی۔ ناول کی ہیروئن عام عورت ہے جس کا پہلے خاوند مرتا ہے پھر اُس کا بیٹا زار بادشاہوں کے خلاف تحریک کی نذر ہو جاتا ہے۔ وہ عورت بیٹے کی محبت میں اس تحریک کو آگے بڑھاتی ہے اور پورے معاشرے کی ماں کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ اسی طرح 50ء کی دہائی میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم ”مدر انڈیا“ ہے جس میں ایک دیہاتی لڑکی ایک ساہوکار کے قرضوں کے منحوس پھیروں میں اپنے شوہر اور ایک بیٹے کو کھو دیتی ہے۔ اُس کا واحد بچ جانے والا جوان بیٹا ساہوکار سے انتقام لینے کے لیے ساہوکار کو قتل کرکے اُس کی بیٹی اغوا کرلیتا ہے۔ وہ عورت اُس کا تعاقب کرتی ہے اور اپنے بیٹے کو خود گولی مار دیتی ہے۔ معاشرے میں اعلیٰ اقدار پروان چڑھانے کے لیے اپنے خاندان کی قربانی دینے پر وہ عورت مدر انڈیا کہلاتی ہے۔ آئیے! ایک اور جانی پہچانی عورت کی کہانی لکھتے ہیں۔ وہ 22برس کی تھی کہ سہاگن ہوگئی اور 28برس کے بعد سہاگن سے بیوہ کردی گئی۔ وہ خوش قسمت تھی کہ اُس کا خاوند اور بیٹی وزیراعظم جبکہ داماد صدرِ مملکت بنے۔ وہ بدقسمت تھی کہ اپنی زندگی میں اس نے اپنے خاوند کو پھانسی چڑھتے دیکھا۔ دونوں جوان بیٹوں اور بیٹی کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ شائد اس لیے کہ اس کے گھر میں ایک بھوت گھس آیا جس نے آدم بو آدم بو کے بجائے بھٹو بو بھٹو بو کہنا شروع کیا اور پھر چن چن کر بھٹو بو والوں کو کھا گیا۔ لوگ اسے نصرت کہتے تھے اس لیے کہ وقت کے حکمران اس کے گھر میں تھے لیکن وہی جانتی تھی کہ حکمرانوں کی مقتل گاہ بھی اسی کا گھر تھا۔ کسی خاتونِ اول نے اقتدار کے اتنے روپ نہیں دیکھے اور اپنوں کی اتنی لاشیں نہیں اٹھائیں۔ اس کے کندھے بہت مضبوط تھے۔ اس نے خاوند، بیٹی اور دونوں جوان بیٹوں کے جنازے اٹھائے لیکن دیکھئے کہ اس کے چاہنے والوں سے اس اکیلی کا جنازہ نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی ٹریجڈیز میں مقدر کا دخل تو ہے ہی مگر دوسروں کی حاسد نیتوں اور کم ظرفیوں کا دخل زیادہ لگتا ہے۔ 1996ء تک اس کا خاوند اور دونوں بیٹے مار دیئے گئے تو اس نے اب خون کا رنگ نہ دیکھنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی یادداشتوں کو بھلا دیا۔ جب وہ 11برس پہلے اگلے جہان پہنچی ہوگی تو حیران ہوگئی ہوگی کہ اس کی دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی چہیتی اور لائق بیٹی بینظیر اس سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہے۔ اس کا میکہ کہیں اور تھا لیکن سسرال یہاں۔ اس کی اولاد میں سے ایک بچے کے علاوہ خاوند سمیت سب بچے ہلاک کردیئے گئے لیکن خواتین پر تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والے دنیا کے کسی ادارے نے اسے اتنا ظلم سہنے کا ایوارڈ نہیں دیا۔ وہ جو نصرت تھی بھٹو سے شادی کرکے نصرت بھٹو بن گئی اور اپنے گھر کی بنیاد رکھی۔ اس نے تقریباً سب کو باری باری رخصت کیا پھر خود گئی۔ آخر وہ گھر والی تھی ناں۔ اس کے گھر میں حکمران بستے بھی تھے اور مرتے بھی تھے۔ نصرت بھٹو کی موت پر بھی کچھ لوگ اندر ہی اندر اس کے خلاف کینہ رکھے ہوئے تھے۔ اب اس کی 11ویں برسی کے موقع پر اُن لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ سب نے ایک عورت کی کوکھ سے جنم لیا۔ عورتوں کی کوکھ سے جنم لینے والے یہ سب نقاد نصرت بھٹو کو ایک عورت ہی سمجھ لیتے۔ اگر ایک روسی عورت اپنے ایک بیٹے کو ڈکٹیٹروں کے خلاف قربان کرکے معاشرے کی ماں بن سکتی ہے یا انڈین فلم میں ایک عورت معاشرے کی ظالمانہ روایات کو ختم کرنے کے لیے اپنی عزت، اپنے دو بیٹوں اور خاوند کو بھینٹ چڑھا کر مدر انڈیا بن سکتی ہے تو نصرت بھٹو اپنے وزیراعظم خاوند کو پھانسی، دونوں جوان بیٹوں کو قتل اور دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی بیٹی کو شہید کرا کے مادرِ جمہوریت کیوں نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس کے خاندان کو جمہوریت کے دشمنوں کے انتقام نے ہی تو ختم کیا۔ ورنہ وہ گھر والی تھی اور حکمرانوں والی تھی۔
بے حسی کی دنیا میں دو سوال میرے بھی
کس طرح جیا جائے؟ کس لیے جیا جائے؟