رپورٹ: نعیم احمد
’’بھارتی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کا معاشی لحاظ سے مضبوط ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو معیشت کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور بالادست طاقت بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے۔ پاکستانی قوم خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے وگرنہ خطے کے دیگر ممالک کی طرح بھارت پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ اور خودمختاری کے لیے بھی سنگین چیلنجز پیدا کر دیتا۔‘‘ ان خیالات کا اظہار بنگلہ دیش کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق ایگزیکٹو چیئرمین اور مشیر توانائی‘ روزنامہ امردیش کے ایڈیٹر اور متعدد کتابوں کے مصنف اور صحافی محمود الرحمن نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نشست کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے پاکستان بنگلہ دیش برادر ہڈ سوسائٹی کے اشتراک سے کیا تھا۔ نشست کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول مقبول سے ہوا جس کی سعادت محمد بلال ساحل نے حاصل کی۔ اس موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین اور پاکستان بنگلہ دیش برادرہڈ سوسائٹی کے چیئرمین میاں فاروق الطاف‘ گروپ ایڈیٹر روزنامہ نئی بات پروفیسر عطاء الر حمن ‘سینئر صحافی اور دانشور مجیب الرحمن شامی‘ بیگم مہناز رفیع‘ سلمان غنی‘ سجاد میر‘ پروفیسر سلیم منصور خالد‘ میاں سلمان فاروق‘ ذوالفقار راحت‘ مجاہد حسین سید‘ بیگم صفیہ اسحاق‘ پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ ثمینہ‘ایڈیٹر نئی بات اسد شہزاد‘ حامد ولید اور شعیب ہاشمی موجود تھے۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دیے۔
محمود الرحمن نے نشست کے انعقاد پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے مطالبے کا محرک دین اسلام تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب اسلام کو پس پشت ڈال دیا گیا تو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو متحد رکھنے والی قوت محرکہ کمزور پڑ گئی جس کے باعث علیحدگی کا سانحہ رونما ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے سرگرم کردار بھارت نے ادا کیا جبکہ مشرقی بازو میں بنگالی قومیت کا فروغ‘ دونوں بازئوں میں معاشی تفاوت اور جغرافیائی لحاظ سے ایک ہزار میل کا فاصلہ‘ مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے مشرقی پاکستان کی صورتحال کو سمجھنے میں ناکامی‘ غیر سنجیدگی اور وہاں کے عوام سے روابط کی کمی بھی اہم عوامل تھے۔ محمودالرّحمن کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر کیمیکل انجینئر ہیں تاہم تاریخ اور حالات حاضرہ سے گہری دلچسپی کی بدولت انہوںنے لکھنا شروع کیا۔ میں نے بنگالی زبان کا روزنامہ ’’امر دیش‘‘ شائع کیا۔ اس کی ادارتی پالیسی میں بنگلہ دیش کی خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کا تحفظ‘ بدعنوانی کا سدّباب اور انسانی حقوق کا تحفظ کلیدی اہمیت کے حامل تھے مگر شیخ حسینہ واجد کی فسطائی حکومت کو یہ ادارتی پالیسی گوارا نہ تھی۔
حکومت نے اس پالیسی کو تبدیل کروانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر میں نے اس پر سمجھوتے سے انکار کر دیا۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش کے کچھ ججوں کی بدعنوانی اور فیصلے صادر کرنے میں جانبداری برتنے پر بھی ایک تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت پر میرے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ یہ رپورٹ لندن سے شائع ہونے والے مشہور ہفت روزہ ’’اکانومسٹ‘‘ میں بھی شائع ہوئی۔اس کی پاداش میں مجھ پر ایک سو سے زائد ناجائز مقدمات بنا دیے گئے۔ مجھے کم و بیش روزانہ ہی کسی عدالت میں پیشی بھگتنا پڑتی تھی۔ ایک دن تو یوں ہوا کہ عوامی لیگی غنڈوں نے کمرۂ عدالت میں جج کے سامنے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں نے اکیلے ہونے کے باوجود بھرپور مزاحمت کی تاہم مجھے خاصی چوٹیں آئیں۔ مجھے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ تب میں نے سوچا کہ آج تو اللہ کے فضل و کرم سے میری جان بچ گئی ہے مگر مستقبل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ زندگی کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود بنگلہ دیش میں مزید قیام خودکشی کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ میں نے اہل خانہ کے مشورے سے 2018ء بنگلہ دیش میں چھوڑ کر بیرون ملک قیام کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے میں ملائشیا گیا اور بعد ازاں ترکی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ترکی کے لوگ بڑے مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ مجھے اور میری اہلیہ فیروزہ رحمن کو ایک لمحے کے لیے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا البتہ ہمیں اپنے ملک کی یاد بہت ستاتی ہے۔ آج کل میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا سے ڈاکٹریٹ کر رہا ہوں اور میرے تحقیقی مقالے کا موضوع The Rise of Indian Hegemon in South Asia and Security of Small States: A Post - 1947 Study ہے۔ اگرچہ میں ایک بار پہلے بھی پاکستان کا دورہ کر چکا ہوں تاہم اس مرتبہ میرے یہاں آنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے اہل علم و دانش سے اپنے تحقیقی مقالے کے لیے تبادلۂ خیال کر سکوں اور ان کے خیالات و آراء سے اسے بہتر سے بہتر بنا سکوں۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقی مقالے میں بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان پر خصوصی توجہ مبذول کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک میری دس کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ میرے کالم اور مضامین بھی مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ میں خود بھی بعض اوقات قاضیٔ تقدیر کے فیصلوں پر حیران ہو جاتا ہوں کہ ایک شخص جو انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا‘ کس طرح اب سوشل سائنسز کے میدان میں سرگرم ہو گیا ہے۔ میری ایک کتاب The Politcal History of Muslim Bangal: An Unfinished Battle of Faith 2019ء میں شائع ہوئی جس کی تقریب رونمائی مذکورہ بالا ملائشیا کی یونیورسٹی میں ہوئی۔
2001 ء میں جب بیگم خالدہ ضیاء وزیراعظم بنیں تو انہوں نے مجھے حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی۔ مجھے بنگلہ دیش بورڈ آف انوسٹمنٹ کا ایگزیکٹو چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔ میں نے اس حیثیت میں بھرپور کوششیں کیں کہ غیر ملکی سرمایہ کار بنگلہ دیش کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ انہیں بہت سی ترغیبات دی گئیں اور سرمایہ کاری کے لیے انتہائی سازگار ماحول فراہم کیا گیا۔ آج آپ کو بنگلہ دیش میں جو خوشحالی نظر آرہی ہے‘ وہ دراصل اس دور میں شروع کئے گئے طویل المعیاد منصوبوں اور بروقت و صحیح فیصلہ سازی کا ثمر ہے۔ یہ ذمہ داری میں نے 2006ء تک نبھائی۔ 2005ء تا 2006ء مجھے بنگلہ دیش کے مشیر برائے توانائی کے عہدے پر کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ توانائی کی بلا تعطل فراہمی صنعتوں کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ اس کے بغیر صنعتوں کا پہیہ جام ہو جاتا ہے‘ مزدور بے روزگار ہو جاتے ہیں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بری طرح متزلزل ہو جاتا ہے۔ہم نے توانائی پیدا کرنے کے ایسے منصوبے شروع کئے جو نہ صرف ماحول دوست تھے بلکہ بنگلہ دیش کے مستقبل کی ضروریات کے لیے بھی کافی تھے۔ محمود الرحمن کے مطابق 1971ء میں بنگلہ دیش اپنے قیام کے بعد بھارتی مغربی بنگال میں محض اس لیے ضم نہ ہوا کیونکہ دونوں حصوں میں مذہب اور ثقافت کا نمایاں فرق تھا۔ انہوں نے کہا کہ سارک تنظیم کا آئیڈیا بنگلہ دیش کے سابق حکمران جنرل ضیاء الرحمن نے پیش کیا تھا اور افغانستان کو اس لیے شامل نہ کیا گیا تھاکیونکہ اسے وسطی ایشیا کا ملک سمجھا جاتا تھا۔جب امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی تو اس نے بھارت کے ساتھ مل کر بھرپور کوشش کی کہ افغانستان کو بھی سارک میں شامل کر لیا جائے۔
امریکہ وہاں اپنی مسلط کردہ کٹھ پتلی حکومت کے لیے قانونی جواز مہیا کرنا چاہتا تھا جبکہ بھارت افغانستان پر اثر انداز ہو کر اسے پاکستان کو گھیرے میں لینے کے لیے استعمال کرنے کا خواہش مند تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت خود کو جنوبی ایشیا کی ایک بالادست قوت تصور کرتا ہے اور بنگلہ دیش اور بھوٹان اس کی اس حیثیت کو قبول کر چکے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک ایٹمی طاقت ہے‘ لہٰذا اس پر بھارت اپنی مرضی مسلط کرنے سے قاصر ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ بنگلہ دیش کے جنرل سہروردی نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ بنگلہ دیش کے آرمی چیفس کا بھارت کی منظوری سے تعین ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں انتخابات کا محض ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور 2018ء کے انتخابات کے موقع پر بھی ایک رات پہلے ہی نتائج تیار کر لیے گئے تھے جن کے تحت وہاں کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو صرف چھ نشستیں دی گئیں۔انہوں نے کہا کہ 2008ء میں امریکہ اور بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شیخ حسینہ واجد کو اقتدار میں لائے جبکہ وہاں کی فوج نے بھی اسے سپورٹ کیا۔ وہ اسلام کی مخالف اور بھارت کی طرفدار ہونے کی وجہ سے امریکہ اور بھارت کی منظور نظر ہے۔ اس کی حکومت میں بنگلہ دیش ایک پولیس سٹیٹ بن گیا ہے اور لوگوں کو غائب کرے اور ان کے ماورائے عدالت قتل کے احکامات براہ راست شیخ حسینہ واجد دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اسلامی ریاستوں میں جمہوریت کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ مطلق العنان اور فاشسٹ حکومتوں سے اپنی بات منوانا اس کے لیے آسان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اتنا ہی جمہوری اقدار کا علمبردار ہوتا تو 2011ء میں مصر میں برسراقتدار آنے والے محمد مرسی کی حکومت کو ایک سال بعد ہی ختم کروا کے وہاں جنرل عبدالفتاح السیسی کو مسلط نہ کرتا۔ محمود الرحمن نے کہا کہ اس وقت شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی سب سے غیر مقبول لیڈر ہے اور ان کے اندازے کے مطابق 80 فیصد عوام اسے اقتدار سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔اس کی فاشسٹ حکومت کے ہوتے ہوئے غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صنعتی ترقی کی بنیاد درحقیقت بیگم خالدہ ضیاء کے دور حکومت میں رکھ دی گئی تھی اور آج کل بنگلہ دیش سالانہ 50 ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے جن میں زیادہ حصہ ریڈی میڈ گارمنٹس کا ہے۔ تارکین وطن کی جانب سے ارسال کردہ سالانہ 20 ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں نوجوان کاروباری افراد کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
نظریہ ٔپاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں مطالبۂ پاکستان کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہندو اکثریت وہاں را م راج قائم کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ اس صورت میں مسلمانوں کا اسلامی تشخص ختم ہو کر رہ جاتا اور وہ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر متعصب ہندوئوں کی غلامی میں چلے جاتے۔ پاکستان کی مادر جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ میں عمل میں آیا اور اسے ایک مقبول عوامی جماعت بنانے کے لئے مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی مشاہیر کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت نے اوّل روز سے پاکستان کے آزاد وجود کو تسلیم نہیں کیا اور اس نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے سازشیں شروع کر دی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعینات ہندو اساتذہ نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی پاکستان سے متنفر کرنے کے لیے زہریلا پراپیگنڈہ کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جونہی شیخ حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت ختم ہوئی تو بنگلہ دیش کی اسلام پسند اور پاکستان کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی جماعتیں برسر اقتدار آجائیں گی۔ ’’پاکستان بنگلہ دیش برادر ہڈ سوسائٹی‘‘ کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے عزم کیا ہوا ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے عوام کو قریب لانے کے لیے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائیں گے۔
مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک مشترکہ تاریخی و تہذیبی ورثے کے مالک ہیں۔ دونوں خطوں کے بزرگوں نے برطانوی سامراج کی غلامی اور ہندو اکثریت کے امکانی تسلط کے خلاف مل جل کر جدّوجہد کی تھی۔ ہمیں ان امکانات پر غور کرنا چاہیے جن کی بدولت دونوں ملک ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو جائیں۔ علاوہ ازیں ہمیں سوچنا چاہیے کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم چار لاکھ سے زائد بہاریوں کو کس طرح پاکستان لا کر آباد کیا جائے کیوں کہ وہ ان کیمپوں میں انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان آنے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ اس مملکت خداداد سے ان کی محبت دیدنی ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان میں مقیم بنگالی افراد کو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث متعدد مشکلات کا سامنا ہے جن میں سے ایک ویکسی نیشن سے محرومی ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ان کی مشکلات کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نوجوان صنعت کار میاں سلمان فاروق نے بتایا کہ انہیں کم و بیش بیس برس تک امریکہ میں اہم عہدوں پر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جہاں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار رائے ہے‘ واں ذمہ داریاں بھی ہیں اور عوام انہیں پورا بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی بنگلہ دیشی عوام کی مانند بڑے سخت جان اور شدید محنت کے عادی ہیں مگر ہمارے ہاں ڈائریکشن کی کمی ہے۔ آج بھی اگر ہمیں قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسا وژنری لیڈر نصیب ہو جائے تو پاکستان برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دے گا۔
بیگم مہناز رفیع نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تحریک پاکستان کے دوران مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی فعال کردار ادا کیا اور انہیں منظم کر کے مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے جمع کرنے کا سہرا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے سر ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی قیام پاکستان کے خواب کو تعبیر عطا کرنے کی خاطر سرگرمی سے جدّوجہد آزادی میں حصہ لیا۔قبل ازیں شاہد رشید نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ 1990ء کی دہائی میں مجھے دو بار بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عام بنگالی پاکستان سے کتنی بے لوث محبت کرتے ہیں۔ دراصل جب سے وہاں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی برسر اقتدار آئی ہے تب سے وہاں بھارتی اثر و رسوخ میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے وگرنہ تحریک پاکستان کی تو ابتداء ہی مشرقی بنگال سے ہوئی تھی۔ 1946ء کے تاریخ ساز انتخابات میں وہاں کے عوام نے قیام پاکستان کے حق میں 97 فیصد ووٹ کاسٹ کر کے تحریک قیام پاکستان میں اپنے لافانی کردار پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔
اسی طرح جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ایوبی آمریت کو للکارا تو 1964ء کے صدارتی انتخاب میں بنگالی عوام کی بہت بھاری اکثریت نے مادر ملتؒ کو ووٹ دے کر اپنے ہاں کامیاب کرایا۔ انہوں نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی دوستانہ روابط کا علمبردار ہے۔ اسی مقصد کیلئے پاکستان بنگلہ دیش برادرہڈ سوسائٹی قائم کی گئی ہے۔ نشست کے اختتام پر میاں فاروق الطاف نے معزز مہمان کو ٹرسٹ کی اظہار سپاس کی شیلڈ‘ مطبوعات اور سی ڈیز کا تحفہ پیش کیا۔
٭٭٭٭