واشنگٹن : سابق ملازمہ نے فیس بک پر الزامات کی بوچھاڑکردی ۔ فیس بک غصے اور نفرت پر مشتمل مواد پوسٹ کرنے کا ذریعہ قراردے دیا ۔
تفصیلات کے مطابق فیس بک کی سابق ملازمہ ڈیٹا سائنسدان فرانسس ہوگن نے برطانوی قانون سازوں کو فیس بک کے لئے بہتر ضابطے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ فیس بک بچوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔
فرانسس ہوگن نے رواں سال کے اوائل میں کمپنی کی اندورنی دستاویزات شیئر کردی تھیں جن میں فیس بک پر الزام لگایا تھا کہ فیس بک سوشل میڈیا پر غصے اور نفرت پر مشتمل مواد پوسٹ کرنے کا سب سے آسا ن ذریعہ ہے ۔
فیس بک کی سابق ملازمہ کا کہنا تھا کہ فیس بک کی مصنوعات بچوں کی ذہنی تربیت کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور یہ پلیٹ فارم بلاشبہ نفرت کو بڑھاوا دے رہا ہے ۔
فرانسس ہوگن نے کہا کہ فیس بک نے سب سے زیادہ کلک کیے جانے والے اور اختلافِ رائے پیدا کرنے والے مواد کو ترجیح دیتے ہوئے ’انگیجمنٹ پر مبنی درجہ بندی کا استعمال کیا۔
امریکی کانگریس میں اس حوالے سے بیان کے ایک ہفتے بعد فرانسس ہوگن نے فیس بک سے متعلق ریگولیٹری آپشنز پر تحقیق کرنے والے برطانوی قانون سازوں کے پینل کو بتایا کہ یہ آپ کو انتہا کی طرف دھکیلتی ہے اور یہ نفرت کو بڑھاوا دیتی ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ غصہ اور نفرت فیس بک پر آگے بڑھنے کا سب سے آسان طریقہ ہے برے اداکاروں کو الگورتھم کی ترغیب ملتی ہے، اور وہ فیس بک کو اوپٹیامائز کرنے کے تمام طریقے تلاش کرتے ہیں۔
فرانسس ہوگن 2019 میں فیس بک کے لیے کام کرنے سے قبل وہ گوگل اور پن ٹرسٹ سمیت کئی کمپنیوں کے لیے کام کرچکی ہیں اور انہیں امید تھی کہ وہ فیس بک کو بدلنے میں مدد کریں گی۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ کمپنی کی جانب سے مواد کے انتخاب کے بارے میں فکر مند ہو گئیں اور مئی میں ملازمت چھوڑ دی۔
اس کے بعد انہوں نے امریکی قانون سازوں اور وال سٹریٹ جرنل سے دستاویزات شیئر کی تھیں جس میں گمراہ کن معلومات، نفرت انگیز اور دیگر مواد کے حل میں فیس بک کی ناکامیوں کو ظاہر کیا گیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ کمپنی کو معلوم ہے کہ انسٹاگرام سمیت اس کی مصنوعات نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر جسمانی ساخت کے حوالے سے نقصان پہنچارہی ہیں۔
فرانسس ہوگن نے برطانوی قانون سازوں کو بتایا کہ ’میں بہت پریشان ہوں کہ شاید 14 سالہ بچے کے لیے انسٹاگرام کو محفوظ بنانا ممکن نہ ہو اور مجھے لگتا ہے کہ اسے 10 سالہ بچے کے لیے محفوظ بنانا ممکن ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک لاکھوں صارفین پر مشتمل بڑے گروپس کو منظم کرنے میں ناکام ہورہی ہے جہاں گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔
دریں اثنا انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیاکمپنی اپنی غیر انگریزی زبان کی مصنوعات میں بھی کم سرمایہ کاری کر رہی ہے، جو پہلے ہی نسلی اور مذہبی تقسیم کا شکار معاشروں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں نہ صرف 'گلوبل ساؤتھ' بلکہ اپنے معاشروں کے لیے بھی سماجی نقصان کا خیال رکھنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کمپنیوں کی جوابدہی کے لیے طریقہ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے‘۔
فرانسس ہوگن نےسوشل میڈیا کمپنیوں میں الگورتھم اور مصنوعی ذہانت کے بجائے مزید انسانی مداخلت کا مطالبہ بھی کیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں فرانسس ہوگن نے امریکی ٹی وی چینل ’سی بی ایس‘ کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فیس بک کو صارفین کی ذہنی صحت یا فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنی کمائی کو اہمیت دیتا ہے۔
وہ فیس بک کے اندرونی باتوں کو سامنے لانے والی اب تک کی سب سے نمایاں شخصیت ہیں اور ان کی جانب سے فیس بک کے پلیٹ فارمز پر بچوں کو نقصان پہنچانے اور سیاسی تشدد کو اکسانے کے الزامات کی حمایت کمپنی کی اپنی تحقیق کے ہزاروں صفحات بھی کرتے ہیں۔
اب تک فیس بک کے جو ورکرز آگے بڑھ کر اس کے خلاف نت نئے انکشافات سامنے لائے ان میں لگ بھگ سب خواتین ہی شامل ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے ان میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے ۔