بہت سے موضوعات پر لکھنا چاہتا ہوں، اُستاد محترم اجمل نیازی کی باتیں اور یادیں مگر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں، میرا مسئلہ یہ ہے کسی بھی شعبے کی کوئی بڑی شخصیت دنیا سے رخصت ہو جائے اُس پر ایک آدھ کالم لکھ کر میں گونگلوؤں سے مٹی نہیں جھاڑ سکتا، ہمارے بے شمار کالم نویس ایسے ہیں، اُن میں ایک دو خواتین بھی ہیں، اجمل نیای کا جن سے بڑا ذاتی و قریبی تعلق تھا، اُنہیں ایک لفظ لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی، نہ اُنہیں یہ توفیق ہوئی اجمل نیازی کی علالت کے دوران وہ پل دو پل کے لیے اُن کی عیادت کے آئے، جناب حسن نثار اور جناب عطا الحق قاسمی نے بڑے خوبصورت کالم لکھے، عطا الحق قاسمی اُن کے جنازے میں بھی شریک ہوئے، مگر جیسے ہی صبح سویرے اُنہیں اُن کے انتقال کی اطلاع ملی وہ فوراً اُن کے گھر پہنچ گئے، گھر میں پڑی میت دیکھ کر وہ زاروقطار روتے رہے، مرحوم کا آخری دیدار کرتے ہوئے وہ بولے ”ظالما ساری زندگی اُس دا رہیا ایں، اج وی رُس گیا ایں“۔ گزشتہ دو کالموں میں، میں نے اجمل نیازی کی شخصی خوبیوں پر بات کی تھی، جہاں تک اُن کے ادبی قد کاٹھ کا تعلق ہے وہ بنیادی طورپر ایک خوبصورت شاعر، اعلیٰ پائے کے نثر نگار تھے، وہ اگر اپنی اِن ہی دو خداداد صلاحیتوں پر توجہ دیتے اُنہیں شاید اُس سے کہیں زیادہ شہرت ملتی جو بطور کالم نویس کے اُنہیں ملی، اُن کے دوچار انتہائی خوبصورت اشعار ملاحظہ فرمائیں،
یہ شعر میں نے ممتاز شاعر سعداللہ شاہ کے کالم سے چُرایا ہے……
میں نے اجمل روشنی کی اِک کرن مانگی تھی
آگ سارے شہر کو کس نے لگائی، کیا ہوا
مرحوم کی ایک خوبصورت غزل جناب عطا الحق قاسمی نے بھی اُن کی یاد میں لکھے جانے والے اپنے کالم میں لکھی ہے۔
عہد غفلت میں مجھے مِثل سحر بھیجا گیا
دیرتک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا
کربلا کے عشق میں تیری نظر کے سامنے
جسم کے نیزے پہ رکھ کر میرا سربھیجا گیا
اب گلے سے لگ کر رونے کی روایت بھی گئی
شہر گریہ میں مجھے بے چشم تر بھیجا گیا
وہ ہم راز تو بنتا نہیں پھر کیوں اُسے
غم کے سب رشتوں پہ میرا ہم سفر بھیجا گیا
ایسے بیسیوں خوبصورت اشعار لکھنے والا، خوبصورت شعری مجموعے ”پچھلے پہر کی سرگوشی“ کے خالق نے نجانے پوری توجہ شاعری پر کیوں نہیں دی، یہی گلہ جناب عطا الحق قاسمی کو بھی اُن سے ہے جس کا اظہار اُنہوں نے اپنے کالم میں بھی کیا ہے، اُنہوں نے تو اپنے کالم کا عنوان ہی ”صاحبِ رخصت شاعر“رکھا، اجمل نیازی، ممتاز شاعر منیر نیازی کو اپنے قبیلے کا سردار کہتے تھے، منیر نیازی کے ساتھ اُنہیں والہانہ عشق تھا، شاید یہی وجہ ہے اجمل نیازی کی شاعری پر منیر نیازی کا رنگ چڑھا نظر آتا ہے۔ مجھے اجمل نیازی کے ساتھ اندرون وبیرون ملک کئی مشاعروں میں شرکت کا موقع بھی ملا، وہ اپنے جونیئرز کی اِس قدر حوصلہ افزائی فرماتے تھے، میں جب اُن کی موجودگی میں اپنا ٹوٹا پھوٹا بے وزن کلام سناتا سب سے اُونچی آواز میں ”واہ واہ“ اُن کی ہوتی تھی، جب میں کالم نگاری کی طرف آیا اُنہوں نے مجھے مشورہ دیا ”اب تم شاعری واعری چھوڑو بس کالم لکھا کرو“……میں بھی اُنہیں یہ مشورہ دینا چاہتا تھا ”اب آپ کالم والم چھوڑیں بس شاعری پر توجہ دیں“…… وہ چونکہ چھوٹی چھوٹی باتوں و مذاقوں کا اکثر بہت بُرا منایا کرتے تھے سو میں اُنہیں یہ مشورہ دینے کی ہمت نہ کرسکا، البتہ ایک بار مجھ سے ایسی گستاخی ہو گئی وہ بہت دن مجھ سے ناراض رہے، میری اُن سے اچھی خاصی بے تکلفی تھی، اصل میں اسی بے تکلفی نے مجھے مروا دیا، …… اِک روز وہ مجھ سے پوچھنے لگے”توفیق تم کتنی دیر میں کالم لکھ لیتے ہو؟“…… میں نے جواب دیا ”ڈاکٹر صاحب کالم تو میں ایک آدھ گھنٹے میں لکھ لیتا ہوں، مگر اُسے ٹھیک کرنے میں دو تین گھنٹے لگ جاتے ہیں“۔ وہ
بولے ”میں تے ادھے گھنٹے وچ پورا کالم لکھ لینا واں“…… میں نے عرض کیا ”تہاڈا کالم پڑھ کے لگ دا وی ایہو ای اے“…… اُنہوں نے غصے سے میری طرف دیکھا، کہنے لگے ”میں تمہیں برباد کردُوں گا“…… اُن کا غصہ اِس قدر زیادہ تھا میں جواباً یہ بھی نہ کہہ سکا ”میں برباد ہونا چاہتا ہوں“…… جیسا کہ میں نے اُوپر عرض کیا وہ بہت اچھے نثر نگار بھی تھے، خوبصورت لفظ اُن پر ایسے نچھاور ہوتے جس محفل میں وہ گفتگو فرماتے اُس میں جان ڈال دیتے، زندگی میں رشتہ داروں خصوصاً اپنے بہن بھائیوں کے مسائل سے اُنہیں فرصت ملتی، آسودگی کے ساتھ لکھنے کا موقع اُنہیں ملتا اشفاق احمد کے بعد اشفاق احمد کی کمی ہمیں شاید کبھی محسوس نہ ہوتی، …… ایک بار کچھ ادیبوں کے ساتھ وہ انڈیا گئے، وطن واپس آنے کے کچھ عرصے بعد اُنہوں نے ”مندر میں محراب“ کے عنوان سے ہندوستان کا ایساخوبصورت سفرنامہ لکھا صرف پاکستان میں نہیں ہندوستان میں بھی اُس کی دھوم مچ گئی۔ اُن کے کچھ حاسدین نے اُن کے اِس سفرنامے کو متنازعہ بنانے کی کوششیں بھی کیں جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے ”مندر میں محراب“ کی تقریب رونمائی کا اہتمام میں نے اپنے ادارے”ہم سخن ساتھی“ کی جانب سے کیا تھا، اِس تقریب میں احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد سمیت بڑے بڑے ادیبوں نے اظہار خیال کیا، …… جہاں تک اجمل نیازی کے کالم کا تعلق ہے، اُن کی دوسری حیثیتوں کی وجہ سے اُس میں بھی اللہ نے جان ڈال دی تھی، اُن کی مقبولیت میں اُن کی ”پگ دارشخصیت“ کا کردار بھی بڑا اہم تھا، بطور صحافی یا کالم نویس اُنہوں نے مختلف اخبارات میں کام کیا، وہ روزنامہ پاکستان کے ادبی صفحے کے انچارج بھی رہے، روزنامہ دن میں بھی بہت عرصہ اُنہوں نے گزارا۔ مگر بطور کالم نویس اُن کا سب سے زیادہ عرصہ نوائے وقت میں گزرا۔ پھر جب تک اُن میں لکھنے کی ہمت تھی اُنہوں نے نوائے وقت میں ہی لکھا۔ نوائے وقت کے مالکان سے اُنہیں بہت سی شکایات بھی تھیں، اُن کو بھی اُن سے کچھ شکایات تھیں، مگر دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں چھوڑا۔ (جاری ہے)!!