بے نیازیاں

11:33 AM, 26 Oct, 2021

ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب بھی رخصت ہو گئے‘ صحافت کا ایک معتبر حوالہ‘شاعری کی ایک منفرد آواز‘دبنگ اور بے باک لہجہ رکھنے والے نیازی صاحب شعبہ صحافت کو اداس کر کے داعیِ اجل کی آواز پر لبیک کہ گئے۔میرا ان سے پہلا تعارف ”مندر میں محراب“(ان کا سفرنامہ)بنا تھا‘کالم نویسی کا شوق پیدا ہوا تو جن کالموں نے شروع شروع میں میری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی‘ان میں ایک ”بے نیازیاں“تھا۔جن دنوں نیازی صاحب نوائے وقت میں لکھ رہے تھے‘میراشعری مجموعہ”لوح ِادراک“اشاعت کے مراحل سے گزر رہا تھا‘ایوانِ اقبال میں حلقہ ارباب ذوق کے الیکشن تھے‘میری نیازی صاحب سے ملاقات ہوئی اور میں نے کتاب پر فلیپ لکھے کی گزارش کی‘مسودہ وصول کیا اور کہنے لگے کسی دن گھر تشریف لائیں‘ میں مسودہ پڑھ کر لکھ دوں گا۔ایک ہفتے بعد وحدت کالونی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہو ئی‘میرے جانے سے پہلے ہی کتاب کا فلیپ لکھ چکے تھے‘مجھے مسودہ اور فلیپ پکڑایا اور منڈی بہاؤالدین کے بارے اپنی یادیں تازہ کرنے لگے۔تھوڑی دیر خاموش رہے اور بولے”زیادہ تو یاد نہیں‘بس دھندلی سی کچھ یادیں ہیں‘والد صاحب کا ٹرانسفر منڈی بہاؤالدین ہوا تو میں تیسری یا چوتھی کلاس میں تھا‘فلاں ایریا میں ایک کرائے کا گھر تھا‘ گھر کے پاس سے چوڑا سا نالہ یا نہر گزرتی تھی‘ تقریباً ڈیڑھ سے دو سال وہا ں رہے‘بہت خوبصورت اور سرسبز علاقہ ہے“۔میں نے ان کی بات کی تائید میں سر ہلایا اور مزید کچھ باتیں ہوئیں‘میں نے رخصت کی اجازت چاہی تو فرمانے لگے جب مجموعہ چھپ جائے تو مجھے لازمی بھیجنا‘میں نے وعدہ کیا اور رخصت ہو گیا۔ دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے اور انتہائی محبت اور اپنائیت سے رخصت کیا بلکہ آتے رہنے کی بھی تاکید کی۔کتاب چھپ گئی تو تین مختلف کالموں میں میری کتاب سے اشعار بھی نقل کیے‘ ایک کالم میں میرا نام آغر کے بجائے آغا لکھ دیا‘میں نے فون کیا تو اگلے کالم میں درستی بھی کر دی۔
2014ء میں راقم نے منڈی بہاؤالدین میں پہلی اردو کانفرنس رکھی‘نیازی صاحب کو مدعو کیا‘ انہوں نے آنے کی حامی بھر لی۔کانفرنس سے دو روز 
قبل میں نے رابطہ کیا تو کہنے لگے ”بھئی دائیں آنکھ کا آپریشن ہوا ہے‘بیڈ ریسٹ پہ ہوں‘آپ کے لیے یہ کر سکتا ہوں کہ اپنا ویڈیو پیغام ریکارڈ کرا دوں‘ پہنچنے سے قاصر ہوں“۔ان کے اس جواب پر خوشی ہوئی‘میں نے عرض کی سر آپ مکمل آرام کریں‘پروگرامز ہوتے رہیں گے‘پھر کسی پروگرام میں ملاقات ہو جائے گی۔یوں کچھ عرصے بعد وجیہہ ثانی (معروف اینکر)کے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی لاہور میں رکھی تو نیازی صاحب کو علم ہوا‘ان کی محبت کہ وہ محترم خاور نعیم ہاشمی کے ہمراہ تقریب میں تشریف لائے اور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی دوبارہ معذرت کی‘کہنے لگے ”سو چا اس دفعہ خود ہی حاضر ہو جاؤں“۔نیازی صاحب چھوٹوں سے انتہائی شفقت سے پیش آنے والے انسان تھے‘ان کے مزاج میں کسی بھی طرح کا غرور نہیں تھا‘تقریبات میں دوستوں سے ملتے اور خوب گپ شپ کرتے۔مجھے یاد پڑتاہے کہ میں جب بھی آپ کے گھر حاضر ہوتا‘کم سے کم بھی ایک گھنٹہ بیٹھتا‘کبھی چہرے پر بیزاری کے آثار نہیں دیکھے۔ اتنا بڑا آدمی‘چھوٹوں سے اس قدر محبت‘کبھی کبھی حیرانی بھی ہوتی کیونکہ ہمارے ہاں زیادہ تر بڑے‘عمر بھر اس زعم سے باہر ہی نہیں آتے کہ وہ بڑے ہیں اور یوں جونیئرز سے سلام دعا میں بھی اپنے ”بڑے“ہونے کا شدید خیال رکھتے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ ایسے ”بڑے“وقت سے پہلے ”چھوٹے“ہو جاتے ہیں۔
نومبر 2019ء میں بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کی ”اقبال کانفرنس“تھی‘کانفرنس سے فارغ ہوئے تو میں اور میجر اعظم کمال اکادمی ادبیات کے دفتر چلے گئے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید ان دنوں چیئرمین تھے‘اجمل نیازی اور ناصر زیدی کی بیماری کا ذکر ہوا تو میں نے عرض کی کہ سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں کہ حکومت ان کو سپورٹ نہیں کر رہی‘ڈاکٹرانعام الحق جاویدکہنے لگے کہ ہم نے ان دونوں شخصیات کے لیے امدادی چیک بھجوائے ہیں‘حکومت ایسے ادیبوں اور دانشوروں کے لیے مکمل سپورٹ کا اعلان کر چکی ہے۔ہمیں خوشی ہوئی کہ ایسا ہوا‘ہم یہ تو نہ جان سکے کہ کتنے کا چیک بھیجا گیامگر سن کر اچھا لگا۔آخری دنوں میں نیازی صاحب مکمل بستر پر آ گئے تھے‘ہمارے شاعر ادیب دوست جاتے تھے‘سیلفیاں لیتے اور خیریت دریافت کر کے واپس آ جاتے‘شاید ایک آدھ دوست ان کی مالی مدد بھی کرتا ہو مگر یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ لکھنے والے اگر اس حالت میں پہنچ جائیں تو کم از کم اپنے قبیلے کے دوستوں کو تومدد کرنی چاہیے‘یہ ہم پران کا حق ہوتا ہے جو ادا کرنا چاہیے۔میں نیازی صاحب کی صحت یابی کے لیے ان کے گھر گیاتو طویل ملاقات نہ ہو پائی‘میں خود بھی ان کو زیادہ دیر تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا‘بس دس سے پندرہ منٹ بیٹھا اور واپس آ گیا۔میں نے اس ملاقات میں سرسری انداز میں پوچھا بھی کہ سر ادویات کے اخراجات آسانی سے پورے ہورہے ہیں‘تھوڑا سا مسکرائے اورآنکھیں بند کر لیں۔میں ان کا جواب سمجھ گیا‘اجازت لی‘ان کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور ”سیلفی بنائے بغیر“واپس نکل آیا۔
آج جب نیازی صاحب کے انتقال کی خبر سنی تو دل بجھ گیا‘کیسے زندہ دل اور صاف شفاف آدمی تھے۔لکھتے تو بلا خوف خطر جو دل میں آتا لکھ دیتے‘تقاریب میں شریک ہوتے تو وہی مٹھاس بھرا لہجہ اور خوبصورت مسکراہٹ‘دوستوں سے ملاقات کرتے تو ایسے جیسے ان سے خود سے بھی زیادہ پیار کرتے ہوں۔ گزشتہ دس سال میں درجنوں تقریبات میں نیازی صاحب کو سنا‘ان کی علمی و ادبی گفتگو سے مستفید ہوئے اور ان کی صحبت سے فیض پایا۔ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کا اندر اور باہر آئینے کی طرح صاف ہو۔یقین کریں نیازی صاحب منافق آدمی نہیں تھے‘جیسا باطن تھا‘ظاہر بھی ویسا ہی تھا۔جہاں دل میں غصہ ہوتا تو کھل کے کرتے اور دل میں پیار ہوتا تو وہ بھی ظاہر کر دیتے‘لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں تھے۔میں تو ان سے بہت جونیئر تھا‘کبھی ملتا تو ایسے پیار اور عزت دیتے جیسے صدیوں کی شناسائی ہو‘شعر سنتے‘کالم پر بات کرتے‘زندگی کے یادگار واقعات سناتے اور میانوالی سے منگوائی سپیشل سوغات سے خاطر مدارت کرتے۔سوغات سے یاد آیا کہ ایک مرتبہ راقم اور محمد ضیغم مغیرہ ملاقات کو حاضر ہوئے‘میانوالی کے سپیشل بسکٹ لائے‘کہنے لگے میرے علاقے کی سوغات ہے‘آپ کو پسند آئے گی۔دوستو!میں اس وقت جب کالم لکھ رہاہوں تو درجنوں واقعات اور باتیں ذہن میں گھوم رہی ہیں مگر کالم کی طوالت کا خدشہ پیشِ نظر ہے‘بس نیازی صاحب کے لیے دعا کر سکتا ہوں کہ مولاان کی اگلی منازل آسان فرمائے اور انہوں نے معاشرے کی تبدیلی کے لیے جو قلمی کردار ادا کیا‘مولا اسے قبول فرمائے۔(آمین)

مزیدخبریں