اس وقت ملک میں گو مگوں کی جو کیفیت ہے، اس نے ملکی اداروں کی ساکھ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے بلاشبہ پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے اور وزیراعظم سپریم کمانڈر ہوتا ہے لیکن اپنی پسند کے ڈی جی آئی ایس آئی کو برقرار رکھنے کے لیے ملک میں جو صورت حال پیدا کر دی گئی ہے، انتشار پھیلا دیا گیاہے یقینا اس کے خطرناک نتائج برآمدہوں گے۔ اس موقع پر اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل بھی مایوس کن ہے اگرچہ وزیراعظم پاکستان نے خالصتاً اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو اپنے عہدے پر فائز رکھنے کے لیے آرمی چیف کی رائے کو پس پشت ڈال دیا ہے اور آرمی چیف کے تعینات کردہ نئے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی بطور ڈی جی نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ یہ وزیراعظم پاکستان کا اختیار ہے اگر آج اپوزیشن اس ایشو پرپارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہو جاتی تو یقینا مستقبل قریب میں اس کے دور رس نتائج برآمد ہوتے تاہم افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت مخالف جماعتوں نے مخالفت در مخالفت کی بنیاد پر ایک سنہری موقع ضائع کر دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر حقیقت میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا تھا بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ مکافات عمل دیکھیے کہ جو ایک وقت میں تھرڈ ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے پر خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے اور آج وہی تھرڈ ایمپائر کو رن آؤٹ یا کم از کم میدان سے باہر کرنے کے لیے شطرنج کی الٹی چال چل بیٹھے ہیں۔ یاد رہے اس الٹی چال چلنے والے اس کھلاڑی کو مین آف دی میچ بھی انہی مقتدر قوتوں نے دیا تھا حالانکہ وہ اس کا مستحق نہ تھا دھاندلی کر کے ایسا کیا گیا تھا۔ اب
اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے مگر ایک بات توطے ہے کہ اس نے اپنی الٹی چال چل کر وقتی طور پر بڑے بڑوں کے پسینے خشک کر دیئے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ مذہب کارڈ مقتدر حلقے استعمال کرتے تھے پہلی بار کسی نے اسی مذہب کارڈ کو ان حلقوں کے خلاف استعمال کیا ہے نتیجہ اس کا جو بھی نکلے۔ وہ تو ویسے بھی اب سب کو علم ہے کہ اس کا نتیجہ موجودہ حکومت سے زیادہ عوام کے خلاف ہی نکلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر حلقوں نے پہلے اس کھلاڑی کو ولن سے ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا گیا تھا وہ حلقے کبھی کسی کو اپنے کاروبار میں شریک نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی پیدا کردہ پیدا وار کے متعلق کسی کو کوئی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان حلقوں کو کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ اور کچھ تھنک ٹینک کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ حلقے ہمیشہ پلان اے کو مکمل کرنے سے قبل پلان بی تیار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں شاید یہی ان کی کامیابی ہے اور ان کے مقابلے میں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ گمبھیر حالات میں عوام جن کو اپنا نجات دہندہ خیال کر رہی ہوتی ہے، وہ پلان بی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی جی حضوری کرنے کے لیے پہلے سے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں تا کہ وہ نہ صرف پلان بی کا حصہ بن کر عملی طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں بلکہ بروقت وہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے اپنی وفاداری کا یقین کرانے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہو رہا ہے۔ حکومت مخالف الائنس پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ماسوائے جمعیت علمائے فضل الرحمن کے باقی سب پاکستان پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ن اسی لائن میں کھڑی نظر آ رہی ہیں، جس طرح ان جماعتوں نے موجودہ حکومت کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اس سے تو یہ لگ رہا تھا کہ آنے والے وقت میں شاید کوئی حقیقی تبدیلی عوام کو دیکھنی نصیب ہو سکے گی۔ دونوں جماعتوں نے مل کر ووٹ کو عزت دو کا جو نعرہ لگایا تھا اس سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب عوام کے ووٹ کو عزت دی جائے گی اور کسی نادیدہ قوت کو عوام کا ووٹ اور عوامی مینڈیٹ چوری کرنے کی ہمت نہیں ہو پائے گی۔ صد افسوس یہ محض ایک دیوانے کا خواب ہی نکلا۔ سیاسی جماعتوں کا مقتدر حلقوں کی حمایت میں کلمات کی ادائیگی نے پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا ہے کہ رہتی دنیا تک اس ملک کے عوام حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہوتے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ اس موقع پر سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ مقتدر قوتوں کو اپنا کندھا فراہم کرنے کے بجائے نیوٹرل ایمپائر کا کردار ادا کرتیں کیونکہ کون نہیں جانتا کہ مقتدر قوتیں ہمیشہ جمہوری حکومتوں کو گرانے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرتی رہی ہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی نے ان کی چال ہی کو الٹا چل کر مذہب کارڈ کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ کالعدم تحریک لبیک کس جوش سے فیض آباد دھرنے دینے کے لیے پیش پیش نظر آ رہی ہے۔ دراصل اس دھرنے کا اصل مقصد جنرل باجوہ کو متنازع بنانا ہے۔ ناموس رسالت کے نام پر جو کھیل رچایا گیا ہے اسی سے ملتا جلتا کھیل پہلے مقتدر قوتیں کھیلا کرتی تھیں۔ کوئی تو ہو جو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو یہ سمجھا سکے کہ چند دن کی خاموشی عوام کے لیے کوئی بہتر خوشخبری لا سکتی ہے بجائے اس کے کہ آپ ووٹ کو عزت دوکے نعرے کے خلاف جا کر اب خود ووٹ چوری کرنے والوں کو اپنے کندھے فراہم کرنے لگ جائیں اب بھی وقت ہے جو ہونے جا رہا ہے اس کو ہونے دیں۔