پروفیسر وسیم سبحانی ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں ہم نے ایک ہی وقت اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز کیا، وہ نجی تعلیمی اداروں سے ہوتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی میں براجمان ہو گئے اور ہم سرکاری ملازمت کی طرف نکل گئے۔ سبحانی صاحب خوش مزاج، خوش خوراک اور کھلے ڈھلے لیکن مشاق استاد ہیں انہیں اپنے سبجیکٹ پر گرپ بھی ہے اور وہ پڑھانا بھی جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس میں معروف اور ہردلعزیز بھی ہیں۔ معاشیات اور اس سے متعلق موضوعات پر ان کی معلومات بھرپور ہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر سیاسی موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں بارسوخ اور فیصلہ ساز لوگوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات بھی ہیں اس لیے ان کے تجزے اور تبصرے خاصے معلومات افزا اور سچ ثابت ہوتے ہیں۔
پاک فوج کی دو اعلیٰ سطح کی تقرریوں کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے بڑے
وثوق سے بتایا کہ صدر مملکت کو آپشن دیئے گئے تھے ”سائن یا ریزائن“ یعنی یا تو آئین کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے بھجوائی گئی سمری پر دستخط کر دو نہیں تو استعفیٰ دے کر گھر جاؤ۔ اسی پس منظر میں انہوں نے زمان پارک لاہور کی راہ لی۔ وزیراعظم کی طرف سے بھجوائی گئی سمری فائل لے کر وزیراعظم کے طیارے میں بیٹھ کر فوراً اپنی پارٹی کے قائد عمران خان کے پاس پہنچے انہیں فائل دکھائی اور پیغام بارے بریف کیا۔ سمری منظوری میں تاخیر ہونے اور بحران سے نمٹنے کے لیے حکومتی تیاریوں بارے بتایا۔ پھر عمران خان نے انہیں سائن کے آپشن پر عمل کرنے کا حکم دیا اس طرح ایک ہی دن میں معاملات طے ہو گئے۔ صدر نے سمری پر دستخط کر دیئے۔
پاکستان میں چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا تقرر جس ہموار انداز میں ہوا وہ ناقابل یقین واقعہ ہے۔ ہماری قومی سیاست اپریل 2022 میں عمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں رخصتی کے بعد سے عدم استحکام اور بے یقینی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی ویسے تو الیکشن 2018 سے پہلے ہی نواز شریف کو سیاست سے مائنس کرنے کی منصوبہ سازی پر عمل درآمد کیے جانے کے باعث عدم اعتماد کا شکار ہونے لگی تھی نواز شریف کے خلاف جس طرح مقتدر حلقے یکسو ہوئے تھے اس سے سیاسی بداعتمادی میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا الیکشن 2018 جس طرح منعقد ہوئے اور آر ٹی ایس بیٹھا یا بٹھایا گیا اس نے معاملات میں بگاڑ پیدا کیا پھر عمران خان کے 44 ماہی دور حکمرانی نے انتقام اور دشنام کی سیاست کو فروغ دیا قومی معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا۔ عالمی اداروں کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ بین الاقوامی تعلقات اپنی پستی کی طرف چلے گئے چین سی پیک کے مسئلے پر ہم سے ناراض ہوا۔ سعودی عرب، یو اے ای، قطر، ترکی کے ساتھ ہمارے معاملات خراب ہوئے عمران خان کی بے لگام زبان درازی اور طویل بیان بازی نے پاکستان کی سیاست کو آلودہ کر دیا تھا۔ فوج، جو عمران خان کی پشت پناہ نہیں بلکہ جائے پناہ بنی ہوئی تھی، کو بھی انہوں نے نہیں بخشا۔ عمران خان کا دور حکمرانی مکمل طورپر تباہی اور بربادی کا پیامبر ثابت ہوا۔ پھر اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے رخصتی کے بعد گزرے آٹھ مہینوں کے دوران عمران خان نے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی شعوری اور منظم کاوشیں کیں۔ لانگ مارچ، قاتلانہ حملہ، پھر شارٹ مارچ اور پھر 26 نومبر کو راولپنڈی میں لانگ مارچ کی قیادت کا اعلان کر کے ملک میں عدم استحکام پیدا کیا۔ فوج میں دو اعلیٰ سطحی تعیناتیوں کے حوالے سے حکومت پر دشنام طرازی جاری رکھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے آئینی اختیار پر سوال اٹھاتے رہے دو بھائیوں کی لندن میں ملاقات کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ نواز شریف، آصف علی زرداری پر لفظی گولہ باری جاری رکھی اور پھر جب تعیناتیوں کے دن قریب آئے تو یہ کہہ کر کہ صدر میرے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ میرے مشورے سے ہی سمری پر دستخط کریں گے، عدم اعتماد کی پہلے سے قائم کردہ فضا کو مزید گہرا کر دیا۔
دوسری طرف شہباز شریف نے ان تعیناتیوں کے حوالے اتحادی جماعتوں کا سربراہی اجلاس طلب کیا تو اس میں انتہائی خوش کن صورت حال سامنے آئی آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت چھوٹے بڑے صوبوں کی چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے متفقہ طور پر شہباز شریف کو تعیناتیوں کے حوالے سے آئینی اختیار استعمال کرنے کی اجازت دے کر سیاست میں ایک اور مثبت روایت قائم کی۔ شہباز شریف یہ اجلاس بلا کر پہلے ہی مشاورت اور اعتماد کی فضا قائم کرنے کی ابتدا کر چکے تھے پھر اگلے دن شہباز شریف نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا اور سمری بھجوانے کی منظوری لے کر جمعرات کے روز سمری حتمی منظوری کے لیے صدرکو ارسال کر دی۔
اس سے پہلے ہی میڈیا میں قیاس آرائیاں بڑی یکسوئی سے کی جا رہی تھیں کہ دو اہم تعیناتیوں پر صدر سمری روک کر بحران پیدا کر سکتے ہیں۔ صدر نے زمان پارک جا کر معاملات عمران خان کے سامنے رکھے اور انہیں بتایا کہ اب ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے صرف اور صرف منظوری دے کر ہی ہم کسی بڑے سانحے اور حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ اس طرح سمری پر دستخط ہوئے۔ جنرل باجوہ اس سے پہلے ہی فوج کے بطور ادارہ سیاست سے دور رہنے کے فیصلے کا اعلان کر چکے ہیں، شہباز شریف نے فوج کی طرف سے بھجوائی گئی لسٹ کے میرٹ کے مطابق پہلے اور دوسرے نمبر پر دیئے گئے دو سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرلز کو فل جنرلز کے طور پر پروموشن دے کر سیاستدانوں کی طرف سے میرٹ پر چلنے کا عملی اظہار کر دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اب پاکستان تعمیر و ترقی کے نئے سفر کا آغاز کر سکے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فوج کی طرف سے اعلان کردہ فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کریں اور انہیں اپنی سیاست میں گھسیٹنے کی روش سے توبہ کریں اسی میں ہماری تعمیر و ترقی کا راز پنہاں ہے۔