جانے والوں کے لیے ہمیشہ اچھا ہی لِکھنا چاہیے، جنرل قمر جاوید باجوہ کے بطور آرمی چیف تین چارروز باقی رہ گئے ہیں، پچھلے کئی روز سے میں یہ سوچ رہا ہوں وہ چونکہ رخصت ہونے والے ہیں اُن کی کون کون سی ادا مجھے یاد رکھنی چاہیے؟ اُن کی کون کون سی خوبی کس کس کارنامے کو مجھے یادرکھنا چاہیے؟ سب سے پہلے مجھے اُن کی اِس خوبی پر بات کرنی چاہیے اُن کا قد بہت لمبا تھا، ہمارے جرنیلوں کا جسمانی قد کاٹھ اتنا ہی ہوناچاہیے۔ البتہ کارناموں کے اعتبار سے اُن کا قد کاٹھ ہو نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جنرل باجوہ کا رنگ ”گندمی“ تھا، اُن کے دورمیں گندم کی پیداوار اُن کے گندمی رنگ ہی کی وجہ سے بڑھتی رہی، زیادہ سفید رنگ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک روز مجھ سے ایک دوست نے کہا ”یاربٹ تمہارا خون سفید ہوگیا ہے“…… میں نے عرض کیا ”وہ خون نہیں تھا“ …… جنرل باجوہ کا رنگ اگر گورا ہوتا ہو سکتا تھا اپنے خان صاحب اُسے بھی اپنے خلاف امریکی سازش کے ایک ثبوت کے طورپر پیش کرتے۔ جنرل باجوہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے وہ ہمیشہ اچھا لباس پہنتے ہیں، بندے کا کردار جیسا بھی ہو ڈریسنگ ہمیشہ اچھی ہونی چاہیے۔ جنرل باجوہ گفتگو بھی بہت اچھی کرتے ہیں۔ وہ جب بھی کِسی تقریب میں گفتگو فرما رہے ہوتے ہمارے تقریباً تمام ٹی وی چینلز تمام پروگرامز روک کر اُن کی گفتگو سنواتے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے اُن کے آرمی چیف گفتگو کی حدتک کتنے اچھے ہیں، اُن کی کِس کِس خوبی پر میں بات کروں؟ ہمیں اُن کا شکرگزار ہونا چاہیے اُنہوں نے بطور آرمی چیف صرف تین برسوں کی ایکسٹینشن قبول کی تھی، حالانکہ جب تین برسوں کی اُنہیں ”زبردستی“ ایکسٹینشن دی جارہی تھی وہ اِس سے انکار بھی کرسکتے تھے، وہ یہ تقاضا بھی کرسکتے تھے صرف تین برسوں کی ایکسٹینشن میرے عہدے کے شایان شان نہیں، مجھے اگر ”زبردستی ایکسٹینشن“ دینی ہی ہے میرے ”حق“ کے مطابق کم ازکم ”تاحیات“ دی جائے۔ ہماری سیاسی جماعتیں تاحیات والا یہ واہیات کام کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتیں مگر شکر ہے باجوہ صاحب نے ایسا کوئی تقاضا ہی اُن سے نہیں کیا۔ اب خیر سے وہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں یہ اُن کی بڑی مہربانی ہے ورنہ ہماری حکمران و غیر حکمران سیاسی جماعتیں اُنہیں مزید ایکسٹینشن دینے کے لیے تیار تھیں۔ کچھ ”اندرونی مسائل“ درپیش نہ ہوتے ممکن ہے جنرل باجوہ بھی ایک بارپھر یہ تقاضا کردیتے مجھے اُسی طرح پھِر”زبردستی“ ایکسٹینشن دی جائے جس طرح ”ملک وقوم کے مفاد میں“ پہلے زبردستی دی گئی تھی۔ ……اپنے ادارے کے مختلف شعبوں میں ریٹائرمنٹ سے قبل اپنے ”آخری خطبوں“ میں بہت کچھ اُنہوں نے فرمایا۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا ’‘’اِس سال فروری میں ہم (افواج پاکستان) نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا آئندہ خودکو سیاست سے مکمل طورپر وہ پرے رکھیں گے۔ یعنی آج کے بعد وہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے“…… بوقت رخصت اُن کے اِس ”مبینہ سچ“ پر ہمیں اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے، ورنہ وہ اگر یہ فرما دیتے میں نے اپنے دور میں اپنے ادارے کو سیاست کی ہواتک نہیں لگنے دی، اور اپنی پوری توجہ پیشہ وارانہ امور پر رکھی ایسی صورت میں ہم اُن کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟۔ البتہ یہ ”سچ“ بولتے ہوئے اُنہیں یہ خیال ہی نہیں آیا ایک طرف وہ خود فرمارہے ہیں ”سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ اُنہوں نے اِس سال فروری میں کیا، دوسری طرف وہ یہ فرما رہے ہیں ”ایک سیاسی جماعت نے 2018کا الیکشن ہارنے کے بعد آر ٹی اے مشین بند ہونے کی صورت میں دھاندلی کے الزامات لگائے، دوسری سیاسی جماعت نے تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد امپورٹیڈحکومت کے طعنے دیئے، ہمیں اِس کارنامہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی“ ……چلیں اِس سال فروری میں چونکہ وہ سیاست میں مداخلت سے توبہ کرچکے تھے تو اُن پر خان صاحب کی حکومت گرانے کا الزام ہوسکتا ہے غلط ہو، مگر 2018اور اُس سے پہلے اگرسیاست میں مداخلت کی جارہی تھی تو ایک سیاسی جماعت کی طرف سے آرٹی اے مشین بند ہونے کے الزام سے مکمل طورپر بری الزمہ وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ اور اُس سے پہلے ایک منتخب وزیراعظم کو کرپشن وغیرہ کی آڑ میں فارغ کیا گیا اُس سے مکمل طورپر بری الزمہ وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ کیا اِس سال فروری سے پہلے سیاست میں مداخلت کا اعتراف کرکے اُنہوں نے یہ ثابت نہیں کردیا کچھ ”فیصلوں“ میں واقعی اُن کا دباؤ تھا؟…… مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ تین سردار جی (سکھ) ایک گھرمیں چوری کے لیے داخل ہوئے، سامان چوری کرکے چلتے بنے۔ جِس گھر میں اُنہوں نے واردات ڈالی وہ اُن کے محلے میں ہی تھا، اگلے روز محلے میں اِس چوری کا سراغ لگانے کے لیے محلے کے بڑوں کی جو ”پنچایت“ ہوئی اُس میں وہ تینوں سردار جی بھی موجود تھے۔ پنچایت میں موجود ہرشخص اپنے حساب کتاب کے مطابق بتارہا تھا کہ چور کون ہوسکتا ہے؟۔ جب سرداروں کی باری آئی ایک سردار جی بولے ”آپاں دسدے آں اے چور کِنے سن تے گھروچ کیویں داخل ہوئے؟۔ ایک چور پرنالے تھانی سب تو اُتلی منزل تے گیا۔ دوجا چور دوجی منزل تے گیا تے میں تھلے کھلوکے دونوں دا انتظار کردا ریا“…… یعنی سردار جی خود ہی بک پڑے یہ چوری اُنہوں نے کی تھی …… ہمارے محترم جنرل باجوہ نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ اگر 2018سے پہلے کرلیا ہوتا 2018کے بعد بننے والے ”انوکھے لاڈلے“ کے ہاتھوں جو بے عزتی اُن کی اور ادارے کی ہوئی وہ یقیناً نہ ہوتی۔ یہ ”سچ“ بھی شاید بِکتا رہتا“ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی“