قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
جی ہا ں! اردواور فارسی کے عظیم شا عر مرزا غا لب نے جو یہ انیسویں صدی میں فرما یا تھا، مکمل طو ر پر ہما رے حا لا ت اور معیشت پر حیران کن حد تک مکمل طو ر پر منطبق ہو تا دکھا ئی دے رہا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ خو د مرزا غا لب پہ یہ شعر کس حد تک پورا اتر تا ہو لیکن ہم پہ اس کے صا دق اتر نے میں کو ئی شک کی گنجا ئش نہیں ہے۔ ہما رے ہا تھ میں کشکو ل اور آ ئی ایم ایف سے ایک بلین ڈا لر قر ض کا سوال۔ مگر آ ئی ایم ایف ہے کہ ہما ری جا نب دیکھنا تک گو ارا نہیں کر تا رہا۔ دوسر ی جا نب ہماری فاقہ مستی کا یہ عا لم کہ ہما ری سڑ کیں کروڑو ں کروڑوں کی مالیت کی گا ڑیو ں سے بمپر ٹو بمپر جا بجا ٹر یفک جا م کر تی دکھا ئی دیں گی۔ غیر ملکی سا ما نِ تعیش سے لدے پھندے ہمارے شاپنگ مالز خبر دیتے نظر آ تے ہیں کہ اس قوم کے امرا کے پا س اتنا پیسہ ہے کہ وہ اسے خر چ کر نے کے بہا نے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ تا ہم اب یہ کہ ہماری حکو مت اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسٹینڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ای) کی بحالی کے لیے معاہدہ طے پاگیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے کے مطابق اب اس معاہدے کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے بعد پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردی جائے گی۔ اس پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی جن شرائط کو مانا گیا ہے اس کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئیں؛ چنانچہ یہ ابہام موجود ہے کہ اس قرضے کے لیے پاکستان فی الحقیقت کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایک بات البتہ واضح ہے کہ قریب ڈیڑھ ارب ڈالر کا یہ قرض پاکستانی معیشت کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوگا۔ اس کی وضاحت پچھلے کچھ عرصے سے جاری ملکی معاشی فیصلوں سے بھی ہوجاتی ہے کہ ریونیو بڑھانے اور سبسڈیز کم کرنے سے توانائی اور اشیائے ضروریہ سمیت ہر ایک چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔ کرنسی کی قدر کی گراوٹ بذاتِ خود مہنگائی کا نسخہ ہے مگر یہاں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس طرح پاکستانی عوام مہنگائی کی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں، مگر پریشان کن بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ حکومت کھلے بندوں تنبیہ کر تی آرہی کہ مہنگائی میں ابھی اور اضافہ ہوگا۔ گزشتہ روز مشیر خزانہ شوکت ترین اور وزیر
توانائی حماد اظہر کی پریس کانفرنس کا لب لباب بھی یہی تھا۔ فاضل وزرا نے بتایا کہ پٹرولیم لیوی ہر ماہ چار روپے بڑھا کر اسے 30 روپے تک لے کر جانا ہے اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی سے 365 ارب روپے جمع کیے جائیں گے۔ اس طرح بجلی کے نرخوں میں اضافے کا بھی بتادیا گیا ہے۔ ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے سیلز ٹیکس میں چھوٹ ختم کرنا بھی آئی ایم ایف کے بنیادی مطالبات میں شامل ہے، جس کا ذکر گزشتہ روز مشیرِ خزانہ نے بھی کیا۔ اگرچہ اشیائے ضروریہ میں پہلے ہی بہت کم ایسی اشیا رہ گئی ہیں جو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں مگر آئی ایم ایف کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے حکومت سیلز ٹیکس ریفارمز کے نام پر جو اقدام کرے گی اس کے بعد خدشہ ہے کہ سبزی، گوشت، دودھ جیسی خوراک کی ان چند اشیا جو اب تک اس ٹیکس کے دائرے سے باہر تھیں، پر بھی سیلز ٹیکس لاگو ہوجائے گا اور خوراک کے نرخ مزید بڑھ جائیں گے۔ مشیرِ خزانہ خود ہی بتاگئے ہیں کہ رواں سال مارچ میں جب پچاس کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا گیا تھا اُس وقت آئی ایم ایف کو یقین دلایا تھا کہ 700 ارب روپے کے برابر ٹیکسوں کا استثنا ختم کیا جائے گا یا کم کیا جائے گا۔ بعد ازاں شوکت ترین صاحب کو جب وزارتِ خزانہ کا منصب ملا تو انہوں نے ان تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے اپنے طور پر ٹیکس بڑھانے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے اس میں کامیابی بھی حاصل کر دکھائی۔ رواں مالی سال کے اب تک کے عرصے میں ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع کرکے حکومت اتراتی رہی ہے، مگر اس کے باوجود آئی ایم ایف اپنی شرط پر قائم ہے اور اب یہ بتایا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس کے استثنا کا خاتمہ، پٹرولیم لیوی اور بجلی کے ٹیرف میں اضافے سمیت ہر وہ قدم اٹھایا جائے گا، عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے جس کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں سامنے آئیں گے، کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر رہا۔ تاہم ان اثرات سے عوام کو کس طرھ بچایا جائے، حکومت اس معاملے پر کوئی مؤثر منصوبہ بندی نہیں کر پائی۔ حکومت نے کم آمدنی والے طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی کی آس لگائی ہوئی ہے مگر عوام اس منصوبے سے کب فائدہ اٹھا پائیں گے، اس کی کوئی خبر نہیں۔ آئی ایم ایف کی تجاویز پر حکومتی اقدامات سے بڑھنے والی مہنگائی آبادی کی غالب اکثریت کے لیے حقیقی مسئلہ ہے مگر حکومت کے مجوزہ منصوبے خیال و خواب دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کی طویل تاریخ موجود ہے مگر موجودہ دور میں قرض کے معاہدے کی شرائط سخت ترین ہیں اور یہ سختیاں بلا روک ٹوک نچلی سطح تک پہنچ رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کی شرط کو اگرچہ حکومت سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے طور پر پیش کررہی ہے مگر اس کے نتیجے میں شرحِ سود اور شرحِ مبادلہ جیسے فیصلے، جو ملک میں مہنگائی پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں، کے حوالے سے تشویش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح بجلی کے شعبے میں، صرف ٹیرف کے اضافے کو اصلاحات سمجھ لیا گیا ہے۔ گیس اور تیل کے شعبے کی صورت حال بھی یہی ہے کہ قیمتوں میں کمی کے امکان کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ بجلی اور گیس کے ٹرانسمشن لاسز، جن میں چوری اور تکنیکی دونوں طرح کے لاسز شامل ہیں، کو کم کرنے کی جانب بھی توجہ نہیں۔سستی بجلی کی پیداوار اور گیس کی ملکی پیداوار میں اضافے سے ہماری حکومت کا سروکار نظر نہیں آتا۔ اس صورت میں توانائی کے وسائل کا مہنگا ہونا اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اور اس کا سارا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کے اس تجاہل کا نتیجہ من جملہ معیشت کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ چنانچہ ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے اور آئی ایم ایف یا دیگر قرض دہندگان کی شرائط مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں۔