یہ تحریک انصاف کے منشور کا ایک بڑا وعدہ تھا کہ قوم کو یکساں نصاب دیا جائے گا، جناب عمران خان بجا طور پر ایک پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک نصاب تعلیم کی ضرورت اور افادیت بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک مزدر کا بچہ مزدور اور ایک کلرک کا بچہ کلرک ہی کیوں بنے۔ وہ قومی زبان کی اہمیت پر بھی بات کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جہاں اردو کو بطور قومی زبان نافذ کیا جائے گا وہاں نصاب بھی اردو میں ہی ہوگا۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد یکساں نصاب کی تیاری بھی شروع کی اور فوری طور پر کچھ کتابیں بھی اردو میں منتقل کردیں مگر اس کے بعد یوٹرن لے لیا گیا۔یکساں نصاب کے نام سے جو کچھ لاگو کیا گیا وہ پہلے سے موجود مواد سے دس فیصد بھی مختلف نہیں تھا۔ اقتدار کے شروع میں اردو کی طرف جو قدم بڑھائے گئے تھے وہ واپس لے لئے گئے اورسنگل نیشنل کریکولم میں درسی کتب انگریزی میں ہی لاگو کر دی گئیں۔ انہی دعووں میں ایک بڑا دعویٰ یہ تھا کہ قرآن پاک کی تدریس کو لازم کیا جا رہا ہے تو یہ فیصلہ نوے کی دہائی میں ہو چکا تھا اوراس کا اعادہ چوہدری پرویز الٰہی بھی بطور وزیراعلیٰ کر چکے تھے۔
میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ جب تک آپ کے طالب علموں میں سے کچھ ایچی سن، شائفات، امریکن سکول، بیکن ہاوس اور لاہور گرامر سکول میں پڑھتے ہیں اور کچھ کم فیسوں والے پرائیویٹ سکولوں میں، کچھ سرکاری سکولوں میں اور کچھ مدارس میں، ایسے بھی کروڑوں میں ہیں جو بالکل ہی نہیں پڑھتے تو آپ ایک قوم اور اس کی ایک کلاس نہیں بنا سکتے۔ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے کچھ بچوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ برطانیہ کے ایجوکیشن سسٹم میں پڑھیں کیونکہ ان کے باپوں کے پاس پیسہ ہے مگر بہت سارے مقامی پرائیویٹ سکولوں میں بھی نہیں پڑھ سکتے کیونکہ ان کے باپ غریب ہیں سو اصل تفریق باپوں کے پاس مال کی ہے۔جس کا باپ پندرہ بیس ہزار کماتا ہے وہ اسے سرکاری سکول میں ڈال دیتا ہے اور جب وہی باپ پچاس،ساٹھ ہزار کمانے لگتا ہے تو اسے کسی نہ کسی پرائیویٹ سکول میں بھیج دیتا ہے جو ہمارے سرکاری سکولوں پر واضح عدم اعتماد ہے جس پر قوم کے ٹیکسوں سے اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔میں نے کہا اور مانا کہ نعرہ بہت دلنشیں تھا کہ قوم کے سارے بچے ایک ہی نصاب پڑھیں گے مگر یہ نعرہ اتنے سارے سسٹمز کی موجودگی میں ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔جب یہ نعرہ لگایا گیا تو میرا سوال یہی تھا کہ ہم اپنے سرکاری سکولوں کے نصاب اور معیار کو اوپر لے کر جا رہے ہیں یا پرائیویٹ سکولوں کے نصاب اور معیار کو نیچے لانا چاہ رہے ہیں۔ اگر ہم سرکاری سکولوں کے نصاب اور معیار کو اوپر لے کر جاتے تو ہمیں اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کو دستیاب سہولتوں کو بھی بہتر بنانا پڑتا جیسے کورونا کے عرصے میں اچھے پرائیویٹ سکولوں کے بچے سمارٹ فونز ، لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز پر اچھی سپیڈ والے انٹرنیٹ کے ساتھ کلاسز پڑھتے رہے اور یوں ان کا تعلیمی نقصان بہت کم ہوا مگر غریب باپوں کے سرکاری سکولوں کے بچے، جو مہینے بعد فنڈ کے نام پر بیس روپے فیس تک ادا نہیں کرپاتے اور بہت سارے اساتذہ کو یہ فیس اپنے پلے سے جمع کروانی پڑتی ہے، ان کے پاس مہینے کے انٹرنیٹ کیلئے کم از کم تین ہزار کہاں سے آتے اور پھر سمارٹ فون وغیرہ، ایک گھر میں اگر باپ کے پاس سمارٹ فون ہے تو بچہ سارا دن اس کا انتظار کرے گا کہ باپ آئے تو وہ لیکچر سن سکے جو واٹس ایپ وغیرہ پر فراہم کیا گیا ہو اور اگر بچے تین، چار ہوں تو پھر کیا ہو ؟
بہرحال، ان تمام کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود حکومت نے پہلی سے پانچویں تک یکساں نصاب لاگو کر دیا جس کا لاگو کیا جانا بھی مضحکہ خیز تھا کہ آپ پہلے برس پہلی جماعت میں لاگو کرتے اور پھرسٹیپپ بائی سٹیپ دسویں تک لے کر جاتے مگر نجانے حکومت کو کیا جلدی تھی کہ اس نے ان بچوں کی زندگی عذاب کر دی جنہوں نے پچھلی کلاسیں اردو میں پڑھی تھیں اور ایس این سی میں ان کی کتابیں انگریزی میں ہو گئیں اور اب یہی کام اگلے برس چھٹی سے آٹھویں تک ایک ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ جو مجھے بک پبلشرز ایسوسی ایشن کے صدر برادرم فواذ نیاز نے دی کہ اس عجیب و غریب فیصلے کرنے والی حکومت نے ایس این سی کو سکولوں کے لئے ’ مینیمم سٹینڈرڈ‘ قرار دے دیا ہے اوراس کے ساتھ اشرافیہ کے بچوں کے لئے یوکے پبلشرز کی کتابوں سمیت ملکی و غیرملکی مہنگی کتابوں کی منطوری سے ایک اور کلاس’ کورپلس‘ متعارف کرواد ی ہے جس میں امیروں کے بچے خصوصی کتابوں کی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ڈاکٹر نعیم خالد، ک پبلشرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں، وہ حکومت کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کی وضاحت کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ اس کے ذریعے حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرٹیفائیڈ کلاس سسٹم کی اجازت دے دی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ سب کچھ آج سے پندرہ برس پہلے مشرف دور میں بھی ہو رہا تھا مگر اس وقت بھی سرکاری حکم نامہ جاری کر کے اس پر ٹھپہ نہیں لگایا گیا تھا۔ ان کی سادہ وضاحت ہے کہ پرائیویٹ سکولز یکساں نصاب سے ہٹ کر بھی کتابیں پڑھا سکیں گے اور یوں وہ فرق برقرار رہے گا جو او لیولز اور میٹرک میں پہلے سے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مدارس کے لیول پر ہے۔ امیچور حکومت اس سے پہلے ایک نصاب کو ایک کتاب کے نعرے کے ساتھ بھی کنفیوژ کر چکی ہے اور اسے بعد میں سمجھایا گیا کہ ایک نصاب تو ہوسکتا ہے مگر لاہور کے پوش ایریاز اور ڈیرہ غازی خان کے دیہات کے بچوں کے لئے ایک کتاب نہیں ہوسکتی یعنی یہ تو فیصلہ ہو سکتا ہے کہ پانچویں جماعت کے بچے کو جمع، تقسیم، ضرب سب آنی چاہئے مگر اس کے لئے کتاب میں مثالیں کیا ہوں گی وہ ایک نہیں ہوسکتیں، بہرحال، یہ سمجھ آنے کے بعد پبلشرز کو کچھ ریلیف ملا ۔
اسی معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ تعلیم اور صحت جیسے شعبے میں حکومتیں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایسے پائیدار فیصلے کرتی ہیں جو برسوں نہیں بلکہ عشروں تک برقرار رہتے ہیں مگر پی ٹی آئی حکومت کی یہاں بھی نرالی روایت ہے۔ صحت پر بات شروع کی تو کالم کی طوالت غیر معمولی ہوجائے گی لہذا تعلیم اور صرف نصاب تک محدود رہتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے ایک نعرہ لگا کر کتابیں انگریزی سے اردو میں کی گئیں اور پھر دوسرا نعرہ لگاتے ہوئے انہیں دو برس بعد پھر انگریزی میں کر دیا گیا۔ میں مانتا ہوں کہ فیصلے غلط بھی ہوسکتے ہیں مگر یہ حکومت وہ نانی ہے جو بار بار خصم کرتی ہے ، برا کرتی ہے مگر پھر اسے بار بار چھوڑ کر اس سے بھی برا کرتی ہے۔ اب حکومت کا تیسر ابرس مکمل اور یکساں نصاب کا ایک برس بھی مکمل ہونے سے پہلے اس میں کور پلس شامل کر کے اپنے ہی ایک پاکستان کے نعرے کی نفی کر دی گئی ہے یعنی تجربات ہیں جو مسلسل کئے جا رہے ہیں اور قوم کے بچوں پر کئے جا رہے ہیں۔ یکساں نصاب کے نام پر یہ وہ مظالم ہیں جو کوروناوغیرہ کے نام پر تعلیمی ادارے ڈیڑھ دو برس تک بند رکھے جانے اور لطیفہ بن جانے والے میٹرک اور انٹر کے امتحانی نتائج کے علاوہ ہیں۔
گستاخی معاف حضور! ناریل بندروں کے ہاتھ میں ہیں اور قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے سر بھی نہیں بچا سکتی۔