کیلیفورنیا: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں لاتعداد افراد ایسے ہیں جو شعوری یا لاشعوری حوالے سے کسی نے کسی خوف میں مبتلا ہوتے ہیں جنہیں نفسیات کی زبان میں ’’فوبیا‘‘ کہتے ہیں۔اس نئی تکنیک میں فوبیا کے شکار نفسیاتی مریضوں کو لاشعوری طور پر ان کے خوف کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرکے اس سے لاتعلق بنا کر مختلف فوبیا سے چھٹکارا دلا کر ان کی زندگی پرسکون بنائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاج کا ایک مروجہ طریقہ ’’ایکسپوژر تھراپی‘‘ ہے جس میں مریض کو ایک محفوظ ماحول میں وہی اشیا دکھائی جاتی ہیں جن سے وہ خوف کھاتا ہے اور نفسیاتی معالج ( سائیکائٹرسٹ) اسے یقین دلاتا ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن بسا اوقات یہ طریقہ الٹا اثر کرتا ہے اور خوف کھانے والا تناؤ کا شکار ہوکر علاج سے دور ہی چلا جاتا ہے۔
اب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، لاس اینجلس کے ماہرین نفسیات کے مطابق یہ سب عمل ایسے انجام دیا جاسکتا ہے کہ مریض کو اس کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور اسطرح خوف سے نجات مل جاتی ہے۔ ماہرین کی ٹیم نے ایک سافٹ ویئر استعمال کیا جو ایف ایم آر آئی اسکینر کو دیکھتے ہوئے کسی خاص شے یا ایسے منظر کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے بارے میں مریض لاشعوری طور پر سوچ رہا ہوتا ہے اس سافٹ ویئر انسانی آنکھ سے دماغ تک آنے والے منظر’’بصری قشر‘‘ یا وژول کارٹیکس کو نوٹ کرتا ہے۔
اس کے بعد ماہرین نے شرکا سے کہا کہ وہ اپنے خوف یا ہیبت ناک اشیا کے متعلق سوچیں۔ اس کے لیے مریضوں کو 40 ایسی اشیا دکھائی گئیں جن سے وہ خوف کھاتے ہیں تھے، مثلاً مکڑی اور کتے بلی وغیرہ۔ اس کے بعد انہیں کہا گیا کہ وہ ایف ایم آر آئی کے متعلق بھی سوچیں اور انہیں انعام میں کچھ رقم دی جائے گی۔
جیسے ہی لاشعوری طور پر کسی شخص کی سوچ ان خوفناک اشیا سے ملتی تو اسے پوزیٹو فیڈ بیک کا نام دیا گیا اور اسے انعام دیا گیا۔ اسے نیوروفیڈ بیک ٹریننگ میں مریضوں کو زیادہ سے زیادہ ان اشیا کے بارے میں سوچنے کو کہا گیا جو انہیں بہت زیادہ ڈراتی ہیں اور ہر بار اس کی تصدیق سافٹ ویئر نے کی اور انہیں انعام دیا گیا۔ مریضوں کو معلوم نہیں ہوا کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں، وہ سمجھتے رہے کہ وہ رقم کے لیے ایسا کررہے ہیں لیکن دھیرے دھیرے ان کا خوف جاتا رہا۔
اسی طرح بلند فوبیا میں مبتلا افراد کو خوف والی اشیا سوچنے پر ہلکا کرنٹ بھی دیا گیا ہے۔ پیسے اور کرنٹ کی 3 گھنٹے کی ٹریننگ کے بعد ان کے فوبیا میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہوا۔ اس کے بعد ایک اور تجربہ کیا گیا جس میں 30 مریضوں کو 40 تصاویر میں سے کوئی دو خوفناک تصاویرانتخاب کرنے کو کہا اس دوران انہیں تصاویر دکھائی گئیں اور ان کے دماغ میں خوف کو ظاہر کرنے والے ایک مقام ’’ایمگڈالا‘‘ کا جائزہ لیا جاتا رہا، بار بار تصاویر کے انتخاب کے بعد ان کا خوف کم سے کم تر ہوتا ہے۔