اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن پرسماعت مکمل ہو گئی ہے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔سپریم کورٹ اس کیس کا مختصر حکم نامہ آج ہی جاری کرے گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس کیا کہ جس کہ پاس جو مواد ہے وہ جمع کروا سکتا ہے،کوئی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا کہ کمیشن کا قیام آرٹیکل 209کی بھی خلاف ورزی ہے۔شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فیصلے دے چکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 209 ایگزیکٹو کو اجازت دیتا ہے کہ صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتی ہے۔ بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کے خلاف مواد اکٹھا کرکے کہ مس کنڈیکٹ کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے مزید ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے آئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ججز اپنی مرضی سے کیسے کیمشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بھی چیف جسٹس کی اجازت سے جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فورم پر جا سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے مزید ریمارکس دیے کہ میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جب یہ آڈیو چلائی جا رہی تھی کیا حکومت یا پیمرا نے اس کو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی؟ جس پر شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی اور حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں۔
قبل ازیں سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے پانچ رکنی لارجر بنچ پراعتراض اٹھا دیا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے انھیں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔
انھوں نے مزید ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی۔ ہم نے سوال پوچھا کہ 184 بی میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا ہے کہ اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ جوڈیشری کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا۔ 9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ بہت ادب سے استدعا ہے کہ لارجر بنچ یہ کیس نہ سنے۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اعتراض کرنا آپ کا حق ہے۔
عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ کو پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے دلائل دیے کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔
شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کارروائی کرنی ہوتی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کیے۔اس سے پہلے تین نوٹیفیکیشن میں حکومت نے ججز تجویز کیے جنھیں بعد میں واپس لیا گیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1956 ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہےہ اس نکتے پر بعد میں آئیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔