حسن چودھری برطانیہ میں مقیم میرا بہت ہی عزیز چھوٹا بھائی ہے، اِس پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ تعلق میرا اعزاز ہے۔ برطانیہ (مانچسٹر) جانے کی ایک طلب اور خواہش یہ بھی ہوتی ہے وہاں اُس سے ملاقات ہوگی وہ ایک انقلابی سوچ کا مالک نوجوان ہے مگر اُس کی انقلابی سوچ شخصیت پرستی کا شکار نہیں، اُس کی نظر میں اصل انقلاب یہ ہے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا جائے اور ڈٹ کر کہا جائے، اِس ضِمن میں وہ کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتا، پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ اُس کا رومانس بہت پرانا ہے۔ مگر اپنی ہی جماعت میں وہ اپنی اہمیت اور قدر آہستہ آہستہ اِس لیے کھورہا ہے بلکہ کھوبیٹھا ہے کہ وہ دِن کو رات اور رات کو دِن کہنے کی خوشامدی صلاحیتوں سے مکمل طورپر محروم ہے، پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ رہنمائوں نے اُسے پاکستان بلایا کہ کچھ اہم معاملات میں وہ اُن کی رہنمائی کرے، اور اُن کا مددگار ہو، کچھ عرصہ قیام کے بعد اُسے یہ احساس ہوگیا تھا یہ جماعت تبدیلی کے بجائے تباہی کے راستے پر چل نکلی ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں کو اپنی آنکھوں سے کرپشن کی بہتی گنگامیں جب اُس نے ہاتھ دھوتے بلکہ پورا غسل کرتے ہوئے دیکھا وہ اتنا بددِل ہوا واپس برطانیہ چلے گیا، اِس کرپٹ سسٹم میں اُس کی واقعی کوئی گنجائش نہیں تھی، کاش اُس وقت اُس نے مجھ سے مشورہ کیا ہوتامیں اُسے یہ مشورہ کبھی نہ دیتا پاکستان واپس آکر اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع کرے، وہ پی ٹی آئی کے اُس نظریے کے ساتھ تھا جو الیکشن سے پہلے کا تھا، الیکشن کے بعد تو اِس سیاسی جماعت کا نظریہ بھی دوسری بے شمار سیاسی جماعتوں کی طرح ’’نظریہ لُوٹ مار‘‘ بن گیا … جس طرح چوری چھوٹی ہو یا بڑی چوری ہوتی ہے اُسی طرح کرپشن چھوٹی ہو یا بڑی کرپشن ہوتی ہے۔ جو چھوٹی کرپشن کرتا ہے اُسے موقع ملے وہ بڑی کرپشن سے بھی گریز نہیں کرتا۔ بندہ ایماندار ہو تو پورا ایماندار ہو، جو شخص جھوٹ بولنے کی کرپشن کرتا ہو، منافقت کی کرپشن کرتا ہو، بدزبانی کی کرپشن کرتاہو، انتقام پسندی کی کرپشن کرتا ہو، مذہب ودیگر کارڈز استعمال کرنے کی کرپشن کرتا ہو وہ روپے پیسے کی کرپشن نہ بھی کرے یا کم کرے تو اُس کی تو اُس کی مذکورہ بالا کرپشن ہی اُس کے کردار کوننگا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ تو توشہ خانہ کے تحائف بیچنے کے عمل کو بھی ’’ایمانداری‘‘ ہی سمجھتا ہے۔ وہ جانتا تھا وہ وزارت عظمیٰ کا اہل نہیں اِس کے باوجود اُس نے یہ عہدہ قبول کرکے اس عہدے کی رہی سہی ساکھ کو بھی راکھ میں مِلادیا۔ ایسے شخص کو ایماندار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ اُسے صِرف پونے چاربرس اقتدار کا موقع مِلا۔ سو اُس کے ساتھیوں نے اُتنی ہی لُوٹ مار کی جتنی اِس عرصے میں وہ کرسکتے تھے، دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح اُنہیں بھی تین چاربار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہوتا۔ یا اب بھی یہ موقع اُنہیں فراہم کردیا جائے، اُن کی کرپشن، باقی جماعتوں کی کرپشن سے شاید آگے نکل جائے گی۔ بلکہ ہوسکتا ہے وہ پارلیمنٹ سے کرپشن کے جائز ہونے کا باقاعدہ کوئی بِل ہی منظور کروالیں۔ اِس جماعت کو اقتدار میں لانے والوں کے کردار پر پہلے ہی بہت سوالیہ نشان تھے، مگر جو سوالیہ نشان ایک نااہل شخص کو اقتدار میں لانے کی وجہ سے اُن پر لگا وہ شاید کبھی نہیں مِٹ سکے گا۔ اُن کے دیگر جرائم کے مقابلے میں یہ جُرم سب سے بڑا تھا جِس کا احساس خود اُنہیں بھی اب یقیناً ہورہا ہوگا۔ حسن چودھری نے اِس حوالے سے بالکل درست فرمایا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے مِس کیلکولیشن کی کہ وہ اقتدار میں آئے گا تو بہت کچھ کرے گا۔ پھر مِس کیلکولیشن کی کہ وہ اقتدار سے جائے گا تو کچھ نہیں کرے گا۔ چوہتر برسوں سے اُن کی مِس کیلکویشنز کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیلکولیشن کے حوالے سے وہ دیوالیہ کی نہج پر کھڑے ہیں جہاں اب آگے کھائی اور پیچھے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی ہے۔ اِن ’’سیانوں‘‘ کی بے وقوفانہ کیلکولیشنز نے سوائے خساروں کے ملک کو کچھ نہیں دیا۔ اب جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا۔ مگر اُن کی خِدمت میں گزارش ہے نئے بیج بونے سے پرہیز فرمالیں۔ کتاب الٰہی کی توقیر اُنہوں کیا کرنی ہے کتاب آئین اور اپنے حلف کا ہی کچھ خیال کرلیں، اللہ اُن تمام لوگوں کی حفاظت فرمائے جو اُن کی لگائی ہوئی آگ بجھانے کے لیے آگ میں کُود پڑے ہیں، جو اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، خواہ وہ سکیورٹی فورسز کے جوان ہیں یا وہ جوان ہیں جو ’’تبدیلی‘‘ کا مزاچکھنے کے بعد اب ’’حقیقی آزادی‘‘ کے جھانسے میں آکر اپنا سب کچھ ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، سیاستدان اور اداروں میں بیٹھے سیاستدان اپنے ’’کاروبار‘‘ ودیگر ذاتی مقاصد کے لیے جب چاہیں بانہوں میں بانہیں ڈال لیتے ہیں، جیسے پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ڈالیں، جیسے پی ٹی آئی اور قاف لیگ نے ڈالیں۔ بیچ میں شیخ رشید کو بھی ڈال لیا، جیسے نواز شریف کو 1999میں اقتدار سے نکالا اپنے مفادات کے لیے پھر اقتدار میں لے آئے۔ 2017میں پھر نکالا پھر لے آئے، بابا رحمتا اور بابا بُوٹا بھی اِن غلاظتوں سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے، وہ اُن کے سہولت کار بنے رہے، …اِن سب کے اعمال کا نقصان کسے ہوا؟۔نقصان صرف اُس ملک کو ہوا جو آج آئی سی یو میں پڑا ہے …ابھی ایک شخص جو اقتدار میں تھا، جس نے ایک ’’ہجوم‘‘ کو امریکی غلامی سے نکالنے کا جھانسہ دے کر پورے ملک میں آگ لگا رکھی ہے اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کہتا تھا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ اِس سے بہتر ہے خودکشی کرلُوں گا۔تب میں نے اُسے مشورہ دیا تھا خودکشی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بس اتنا کریں دوسروں کے لیے خود کو ایک مثال بناتے ہوئے چارسوکنال یا ایکڑ میں مشتمل بنی گالہ کے اپنے محل کو بیچ کر اُس کی رقم قومی خزانے میں جمع کروادیں، اپنے ارکان اسمبلی اور وزراء سے کہیں ملک کی معاشی حالت بہت پتلی ہے دوبرسوں تک ہم میں سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کرے گا، یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہوگی تاکہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے لیے ہمارے لیے کچھ آسانیاں پیدا ہوسکیں۔ اِس طرح کے اور بھی بہت سے اقدامات کریں …مگر اُس نے وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں بیچنا شروع کردیں۔ جتنا وہ بے وقوف ہے، معاشی معاملات میں جتنی اُس کی عقل ہے اور جیسا ابتدا میں وزیر خزانہ (اسدعمر ) اُس نے رکھا اُسے یقین تھا دوچار بھینسیں بیچ کر آئی ایم ایف سے وہ مستقل طورپر نجات حاصل کرلے گا، نجات کیا حاصل کرنی تھی اُلٹا آئی ایم ایف کے چُنگل میں ملک کو مزید پھنسا کر رکھ دیا …اقتدار میں آنے کے بعد پونے چاربرسوں میں امریکہ سے آزادی حاصل کرنا تو دُور کی بات ہے اپنی جھوٹی اورچھوٹی انا تک سے آزادی وہ حاصل نہ کرسکا، امریکہ کے ساتھ اُس کی قربتوں کا یہ عالم تھا وزیراعظم بننے کے بعد دورہ امریکہ کے بعد واپس پاکستان آیا۔ ایئرپورٹ پر وہ اتنا خوش تھا جیسے امریکیوں نے اُسے یقین دہانی کروادی ہو امریکی صدر کے عہدے کا اضافی چارج بھی اُسے ہی دے دیا جائے گا۔ممکن ہے وہ ایک آدھ دن میںامریکہ میں فوری نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی کردے !!