اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کو پاکستان آنے سے 2 ماہ پہلے پتا تھا کہ وہ وزیر اعظم نہیں ہوں گے۔ نواز شریف سسٹم کو چلانے کے لئے وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے تھے کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ اگر وہ سیدھے راستے پر بھی چلیں تب بھی کچھ حلقوں کو ان سے مسئلہ ہوتا ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے عرفان صدیقی کا اسحاق ڈار کو کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کا چئیرمین مقرر کیے جانے کے بعد انہیں ہٹائے جانے پر رانا ثناء اللہ کے دیے گئے بیان کہ یہ فیصلہ ضروری تھا کہنا تھا کہ کہ اس کی تشریح تو رانا ثناء اللہ ہی کرسکتے ہیں، اس فیصلے پر نواز شریف سے ضرور مشاورت کی گئی ہوگی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پہلے آپشن کے طور پر کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت بنائے، پی ٹی آئی کے انکار کے بعد ’کوئی آپشن نہیں تھا اس کے علاوہ کہ پیپلز پارٹی اور ہم مل کر حکومت بنائیں‘۔ اگر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان حکومت سازی کا معاہدہ ہوجاتا تو ہم نے کوئی رخنہ نہیں ڈالنا تھا، ہم آرام سے اپوزیشن میں بیٹھ جاتے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے بنیادی فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہوتا ہے لیکن ان فیصلوں میں اتحادی بھی شامل تھے، شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کرکے نواز شریف کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ کم سے کم مجھے معلوم تھا کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ نہیں لیں گے۔ انہیں خدشہ تھا کہ حلقوں میں میرے حوالے سے کچھ خدشات ہیں جو آڑے آسکتے ہیں۔ مستقبل قریب میں ممکن ہے کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت دوبارہ سنبھال لیں۔
عمران خان کی جیل میں مراعات اور اخراجات پر کئے گئے ٹوئٹ پر انہوں نے کہا کہ اس کو 48 گھنٹے گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک اس پر نہ تو کوئی وضاحت آئی ہے اور نہ تردید آئی ہے۔ جیل میں ایک قیدی کیلئے 1100 روپے ملتے ہیں جس میں اس کا ناشتہ، دن کا کھانا اور رات کا کھانا شامل ہے ۔خان صاحب پر روز کا 20 سے 22 ہزار روپے کھانے کا خرچہ آرہا ہے‘، ان کا گھر سے کھانا نہیں آرہا، ان کا کھانا وہیں پکتا ہے وہیں بنتا ہے۔