اب بھی اگرکوئی یہ سوال کرے کہ اس ملک میں امریکہ اوردیگرعالمی طاقتوں کا ایجنٹ کون ہے؟تواس کی عقل پرماتم ہی کیاجاسکتاہے کیوں کہ امریکی آقااوراس کاغلام (ایجنٹ)کھل کرسامنے آ چکے ہیں۔ انڈیااپنے جاسوس کلبھوشن کے لیے اتناپریشان نہیں جتناامریکہ عمران خان کے لیے پریشان ہے، قطار در قطار امریکیوں کی دھمکیاں روزانہ کی بنیادپر پاکستان کوموصول ہورہی ہے اور جو کسر باقی رہ جاتی ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے گوش مالی کرکے پوری کی جارہی ہے جبکہ ہماری عدلیہ اس ”جہاد“ میں بھرپورحصہ ڈال کرمال غنیمت کے حصول میں نمبرلے جانے کی کوشش کررہی ہے۔
سی آئی اے کے انٹرنیشنل ایجنٹ زلمے خلیل زادکچھ زیادہ ہی پریشان ہیں انہوں نے اپنے تازہ ٹویٹ میں کہاہے کہ ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان، جو حکومتی اتحاد کے زیر اثر ہے، سپریم کورٹ سے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان کو نااہل کیا جائے یا اگلے چند دنوں میں تحریک انصاف پر پابندی لگا سکتی ہے۔انھوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ (پی ڈی ایم) حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنایا جائے تاہم ایسا کرنے سے پاکستان میں بحران شدید ہو گا اور بین الاقوامی مدد میں کمی آئے گی۔ مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاستدان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی تباہ کن سیاست سے گریز کریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دے گی۔
زلمے خلیل کے بیان کے فوراً بعد چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال نے غلام محمود ڈوگرتبادلہ کیس میں کہاکہ اگر شفاف انتخابات میں بدنیتی ہوگی تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے جسے آڈیو ٹیپس کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے، ہم صبر اور درگزر سے کام لیکر آئینی ادارے کا تحفظ کریں گے، آئینی اداروں کوبدنام کرنے والی ان آڈیوٹیپس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، زلمے خلیل کے بیان کے آخری جملے اورہمارے محترم چیف جسٹس کے پہلے جملے کوملاکرپڑھیں توکہانی واضح ہوجاتی ہے۔باقی جہاں تک کسی کی بدنیتی کوجانچنے کاتعلق ہے توعمرعطابندیال اگراسی پیمانے سے ان آڈیوٹیپس کی تحقیقات یافرانزک آڈٹ کرانے کا حکم جاری کر دیں جو ججز صاحبان کے متعلق سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں تو یہ ضرور پتا چل جاناتھا کہ کون اس ملک کے ساتھ یااداروں کے ساتھ بدنیتی کررہاہے؟
جہاں تک زلمے خلیل کے بیان کاتعلق ہے توانہوں نے پاکستان کے معاملات میں مداخلت
کے ساتھ ساتھ پاکستان کوسیدھی سیدھی دھمکی دی ہے مگرعمران خان اوران کے ہمنواخوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں ایسے محسوس ہوتاہے کہ اس وقت اگرشیطان بھی عمران خان کی حمایت میں کھڑاہوجائے توخان صاحب اسے بھی سلام کریں گے۔جبکہ فواد چوہدری نے کہاہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے مزید بیانات بھی سامنے آئیں گے۔دوسری جانب امریکی سینیٹر جیکی روزن نے بھی 22 مارچ کو ہی ٹوئٹر پر لکھا کہ مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے اور میں تمام پارٹیوں سے کہتی ہوں کہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں اور قانون اور جمہوریت کی پاسداری کریں۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کواچانک جمہوریت کامروڑکیوں اٹھاہے اوریہ جمہوریت انہیں صرف عمران خان کی شخصیت میں ہی کیوں نظرآرہی ہے؟
ایک طرف امریکیوں کایہ رویہ ہے تودوسری طرف پاکستان کے پیشگی اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف تاحال مطمئن نہیں ہواہے شیطان کی آنت کی طر ح اس کے مطالبات آئے روزبڑھتے جارہے ہیں آئی ایم ایف کا شرح سود میں کم از کم 2 فیصد اضافے کے لیے دبا ؤہے آئی ایم ایف عالمی طاقتوں کی ایما پرجوپس پردہ کھیل رہاہے وہ نہایت خوفناک ہے ایک طرف آئی ایم ایف اوران کے آقاؤں کویہ دکھ ہے کہ ان کے ”غلام“ عمران نیازی کی حکومت کیوں ختم کی گئی اوردوسراانہیں یہ غم کھائے جارہاہے کہ پاکستان ابھی تک ڈیفالٹ کیوں نہیں ہوا؟کیوں کہ 2019میں جب آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا گیا تھا تواس وقت دونوں اطراف سے شایدکچھ ایسی یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں یامذموم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
عمران خان نے جس اندازمیں ملک کو ہاتھ پاؤں باندھ کر آئی ایم ایف کے سامنے ڈالاتھا ابھی تک ہمارا ملک سنبھل نہیں پا رہا ہے آئی ایم ایف نے سستے پٹرول پروگرام پربھی اعتراض کر دیا ہے جس کے تحت موٹر سائیکل اور 800 سی سی سے چھوٹی گاڑی والوں کو پیٹرول 100 روپے لیٹر سستا پٹرول فراہم کیاجاناتھا آئی ایم ایف وہ گلے کی ہڈی بن گیاہے کہ جو نگلی جارہی ہے نہ اگلی جارہی ہے حالانکہ پاکستان کاآئی ایم ایف کے ساتھ یہ پہلاپروگرام نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے 22مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جاچکاہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے لیے(امریکی غلامی سے آزادی کے لیے نہیں) ایک اور امریکی کنسلٹنٹ فرم سے معاہدہ کیاہے پاکستان تحریک انصاف یو ایس اے نے واشنگٹن میں قائم لابنگ فرم پرایا کنسلٹنٹس ایل ایل سی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کی مدت کے دوران، فرم امریکا کی حکومت اور اداروں کے ساتھ کلائنٹ کے تعلقات کے بارے میں ماہرانہ مشورہ فراہم کرے گی۔ مزید برآں فرم کئی اہم امریکی فیصلہ سازوں کے ساتھ میٹنگز کا اہتمام کرے گی اور میٹنگوں کے مواد کے لحاظ سے رہنمائی فراہم کرے گی۔جبکہ فرم کے ساتھ معاہدہ 15 فروری سے 6 ماہ تک رہے گا اور بوقت ضرورت معاہدہ 31 جنوری 2024 تک توسیع بھی کیا جا سکتا ہے۔کیاان معاہدوں پرعقل سے عاری یوتھیے اپنے قائدسے سوال کریں گے کہ سال پہلے جو امریکی غلامی اور امریکی سائفرکاجو طوفان اٹھایاگیاتھا وہ کیاہوا؟
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف وزیرستان تابلوچستان فوج دہشت گردوں کے نشانے پرہے تودوسری طرف پی ٹی آئی کی طرف سے نئے آرمی چیف کے ساتھ ساتھ ساتھ فوج کے خلاف نئی سوشل میڈیامہم شروع کردی گئی ہے۔ اسی مہم کے تحت پی ٹی آئی امریکہ اور برطانیہ فوج کے خلاف غلیظ نعروں کے ساتھ احتجاج کررہی ہے اوراس مہم کی تازہ ترین مثال چنددن قبل دیکھنے کو ملی جب لاہورمیں ایک شخص کی ویڈیووائرل ہوئی جو پی ٹی آئی کارکنوں کو گاڑیاں جلانے کا کہہ رہا تھا۔ عمران خان فوراًالزام لگایا کہ یہ ایجنسیوں کا بندہ ہے اور یہی ہمارے کارکنوں کو اکسا رہے ہیں۔لیکن بعد میں پتہ چلاکہ یہ نامعلوم بندہ پی ٹی آئی کاکارکن ہے تو عمران نیازی نے ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی اور اس پر معذرت تک نہیں کی نہ کسی شرمندگی کا اظہار کیا۔
عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اوراپنے بیرونی آقاؤں کے کندھوں پرسوارہوکروہ اپنی پسندیدہ تاریخ پرالیکشن بھی کرا لیں گے،اپنی مرضی کی نگران حکومتیں بھی بنالیں گے وہ دوبارہ وزیراعظم بھی بن جائیں گے،عدلیہ میں اپنے پسندکے ججزسے اپنی پسندکے فیصلے بھی کرا لیں گے ملک کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے وہ قدم اٹھانے میں آزادبھی ہوں گے آرمی چیف کی نئے سرے سے تقرری سمیت وہ دیگرایشوزپربھی وہ بااختیارہوں گے تویہ خان صاحب کی سوچ ہے یہ ملک معاشی طورپرکمزورضرورہے مگرامریکی اوردیگرعالمی طاقتوں کی چراگاہ نہیں،الیکشن کمیشن نے پنچاب کے انتخابات ملتوی کرکے عمران خان اوران کے عالمی آقاؤں کوایک ہلکاساجھٹکادیاہے آئندہ دنوں میں ایسے مزیدجھٹکے بھی لگیں گے۔
اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، سینوں میں