بچپن میں وقتاً فوقتاً گھر والے ہماری ”ٹینڈ“ کروا ڈالتے تھے۔ ہم اس پوزیشن میں نہ کبھی تھے نہ آج ہی ہیں کہ اس ”جبر“ پر احتجاج کر سکیں یا آگے سے ٹینڈ کرنے اور یہ جبر ہم پر مسلط کرنے والے کوآنکھیں ہی دکھا سکیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کسی بچے، بالخصوص شیر خوار کی ٹینڈ کا عمل شروع ہوتا ہے تو وہ پہلے تو اچھا اچھا محسوس کرتا ہے جیسے بڑے اہتمام سے کوئی اچھا کام ہونے والا ہو…… پھر جب کمال مہارت اور زبان سے خوش آمدی فقرے کہتا ہو احجام استرابچے کے سر پر پھیرتا ہے تو بچے کو اچھا لگتا ہو گا وہ سمجھا ہو گا کہ جس طرح ’رسم ختنہ‘ انجام پائی تھی، مٹھائی وغیرہ تقسیم کی گئی۔ یہ بھی ”رسم ختنہ“ کی طرح کوئی ”اچھا عمل“ ہی ہو گا اور جس طرح ”رسم ختنہ“ ایک فرض سمجھ کر ادا کی جاتی ہے ایسے ہی یہ رسم بھی نہایت اچھے ماحول میں ادا ہو رہی ہوگی…… ہم بڑے خوش آمدیوں کے چکر یا ان کی چالبازیوں میں آجاتے ہیں …… بچے تو پھر بچے ہیں ……
ایک تازہ قطعہ لکھا خود پسندی کے انداز میں اور فیس بک پر چڑھا دیا۔ جب تین چارلڑکیوں اوہ، سوری ……عورتوں یا یوں کہہ لیں کہ تین چار شاعرات نے جب اس قطعہ پر تعریفی جملے اچھالے تو مجھے اچھا لگا……لیکن جب منگلا سے راجہ صفدر صاحب نے بھی تعریف کی تو خوشی سے دل اچھلا اور مابدولت جھومنے لگے۔ آپ بھی قطعہ ملاحظہ کریں ……
نرم باتیں گداز قصے ہیں
اپنے سب دل نواز قصے ہیں
نہیں ہے باعث ندامت کچھ
میٹھے ہیں مدھر ساز قصے ہیں
خوش آمد اب ایک زندگی کا ضروری حصہ ہے جس طرح ملکی حالات اور تین سال سے چلنے والے سیاسی ”دنگل“ دیکھ کر لگتا ہے ”کرپشن“ ہماری زندگیوں کا ایک حصہ ہے……
بات شروع ہوئی تھی ”رسم ٹینڈ کرائی“سے اور ”رسم ختنہ“ سے ہوتی ہوئی ”رسومات کر پشن“ تک پہنچ گئی۔ ٹینڈ ایک ایسا عمل ہے جس پر ”عام“ فہم کی حجامت سے بھی کہیں کم پیسے یعنی مالی نقصان بہت کم ہوتاہے۔ ویسے ”حجامت ہونا“ٹینڈ ہوجانا، یہ ہمارے ہاں رائج محاورے بھی ہیں جو ادیب خواتین وحضرات اکثر ہمارے ہاں سیاسی تحریریں یا کالم لکھتے ہوئے اپنا غصہ نکالنے کے لیے اپنی تحریروں میں ڈال دیتے ہیں حالانکہ جس سیاسی سستی کو، چھیڑنے کے لیے یہ ”بد ذائقہ“ محاورے تحریر میں ڈالے جاتے ہیں اس شخصیت پر اس کا ذرا برابر بھی اثر نہیں ہوتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ ایسی ”چھیڑ خانی“ کو اپنی جوتی کی نوک پر بھی نہیں لکھتے…… حالانکہ ہمیں ایسے محاوروں پر شرمندہ ہونا چاہیے کیونکہ پچھلی صدی میں ”لوگ“ ایسی
باتیں یا محاورے جب ان سے منسوب کیے جاتے تھے پڑھتے ہوئے شرمندہ ہوتے تھے کچھ کو تو پیشانی پر پسینہ بھی محسوس ہوتا تھا……
بات ٹینڈ سے شروع ہوئی تھی اور جا پہنچی ”احساس“ تک شرمندگی تک …… افسوس کہ اب ”احساس“ نام کی چیز کا ہمارے ہاں فقدان ہے لفظ شرمندگی شاید اگلے چھپنے والے ایڈیشن میں ”ڈکشنری“ سے نکال ہی دیا جائے کیونکہ ”گوگل“ ہو تو ڈکشنری کہاں ……
بچے کو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کیا ظلم ڈھایا جا چکا ہے جب اس کے سامنے والے سر کے حصے پر استرا اپنا کام دکھا چکا ہوتا ہے اور یہ جان لیں کہ کچھ لوگوں کو ٹینڈ ان کے چہرے کے مطابق اچھی لگتی ہے، اس کی شخصیت نکھرسی جاتی ہے لیکن یہ مت بھولیے کہ ٹینڈ کے فوائد بھی شاید کتابوں میں لکھا ریوں نے لکھے ہوں مگر ٹینڈ کروانے کے نقصان کہیں زیادہ ہیں ……
مثلاً…… آپ ٹینڈ سمیت لڑکیوں کے کالج کے سامنے سے نہیں گزر سکتے؟ کیونکہ اکثرلڑکیوں کے پاس اب ”ٹچ“ والے فون بھی ہیں اور اب ایک سیکنڈ میں Clips تیار بھی ہو جاتے ہیں اور پھر فیس بک پر چل بھی جاتے ہیں اور سینکڑوں شریر بچے جو ہر آن کمپیوٹر سے چپکے بیٹھے ہوتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے بال کی کھال اتارنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پتہ اس وقت چلتا ہے جب کوئی دور پار کا رشتہ دار فون کر کے بتاتا ہے…… ”یار تمہاری تو فیس بک پر دوستوں نے خوب ٹینڈ کی ہے؟“
مجھے یاد ہے جب بچپن میں ہماری ٹینڈ ہوئی تو ہم نے مہذب ہونے کے باوجود حجام کو خوب ”پنجابی“ میں گالیاں دے ڈالیں …… ایک تو حجام ناراض ہو گیا دوسرا سب کو پتہ چل گیا کہ ہم بھی کس قدر ”مہذب“ ہیں …… ایک واحد بات جس پر میں اپنے بھائی سے ناراض ہوا ……یہ کہ اس نے ٹینڈ ہوتے ہی ہماری ٹینڈ سمیت فوٹو اتار لی اور وہ فوٹو ایک عرصہ تک لوگوں کے لیے تفنن طبع کا باعث بنتی رہی…… ویسے ایک ٹینڈ عزت اور خوشی کا باعث بھی ہوتی ہے وہ جو عمرہ شریف کی ادائیگی پر ہوتی ہے…… دعا کریں اللہ پاک ہمیں اس ٹینڈ کی جلد سعادت عطا فرمائے ……آمین ……
یہ میری پہلی تحریر ہے جس پر میں نے اصل بات کرنے سے پہلے اتنی طویل تمہید باندھ ڈالی۔ ایسے سچ بتا ئے…… آپ کو آج بھولا بسرا وقت یاد آ گیا ہے ناں؟ آپ اس وقت اپنے اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر گزرا وقت یاد کر رہے ہوں گے؟ اور ٹینڈ کی لذت بھی محسوس کر رہے ہوں گے؟…… ہوا یوں کہ میں نے منظور بھائی ٹینڈ والے کو عرصہ ایک سال سے ٹینڈ سمیت دیکھا…… میرا منظور سے چونکہ مذاق بند ہے، لہٰذا میں نے چاہتے ہوئے بھی یہ موضوع نہ چھیڑا…… حالانکہ اکثر منظور بھائی کو دیکھ کر میرے دائیں ہاتھ میں کجھلی ہونے لگتی مگر میں کنٹرول کر جا تا اور ٹینڈ پر میری تحریر موخر ہوتی چلی گئی حالانکہ ”نسوار“ پر میرا مضمون چھپنے اور پسند کیے جانے کے بعد ٹینڈ ہی وہ موضوع تھا جو مجھے لکھنے پراکسا رہا تھابلکہ ایک دوبار تو میں نے حجام کی دوکان کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچا بھی کہ خود ہی ٹینڈ کر واڈالوں تاکہ پتہ چلے کہ آج کل ”ٹینڈ“ کروانے والے کو کن کن فقروں سے پالا پڑتا ہے۔ کیاکیا سننا پڑتا ہے دوست دشمن اس Event کو کیسے انجوائے کرتے ہیں ……
علی عظمت اکثر کیوں ٹینڈ کروا رکھتا ہے؟ شاید جوانی میں اس کی محبوبہ نے کہا ہے ……علی عظمت ہائے گلو کار جب ٹینڈ سمیت اسٹیج پرآتے ہیں تو پبلک خوش ہوتی ہے…… انجوائے کرتی ہے اورعلی عظمت نے عوام کی خاطر یہ ”کشٹ“ کاٹا ہو……
پہلے زمانے میں ٹینڈ کو ”کائیں کائیں“ کی کوے بھی سلامی دیا کرتے تھے اور دوست محبت سے ”ٹینڈ پر ”ٹھونگے“ بھی لگاتے تھے جس طرح ”چول“ کی تعریف آج تک کوئی بھی نہیں کر سکا، ایسے ہی ”ٹھونگے“ کی Defination بھی نہیں بیان ہوئی۔ بس آپ گزارہ کریں جیسے پاناما کا فیصلہ کوئی سمجھ پایا کسی کے سر پر سے گزر گیا۔ نہ کوئی نواز شریف کو بتا سکا کہ وہ کیوں نا اہل ہوئے نہ ہی عوام کو کچھ سمجھ آئی……ایسے ہی اب عمران خان کو کوئی تو سمجھاتا کہ تو شہ خانہ اور پاناما میں کیا مماثلت ہے۔ خیر اب تو پانا مہ ماضی کا قصہ بن گیا کیوں کہ اب تو خبروں کا HOT موضوع ”ٹینڈ“ ہے یا پھر ”مردم شماری“…… اور آخری خبریں آنے تک یہ پتہ چل رہا ہے کہ ”توشہ خانہ“ بھی سرد خانے میں گیا حالانکہ دنیامیں HOT موضوعات بدلتے رہتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے اپنی زندگی کے تین سال پانامہ کی نذر کر ڈالے۔ ان کا رزلٹ کیا نکلے گا؟ یہ میں آپ کو کان میں بتاؤں گا…… ورنہ چینلز میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔ جیسے بہت سال پہلے HOT موضوع تھے ہمارے پیارے آصف علی زرداری ……وہ لا ہور سے گرفتار ہوئے، دس سال جیل کاٹی پھر صدر پاکستان بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب کے سامنے وہ تمام معاملات سے بری ہو گئے …… بلکہ دنیا بھول گئی کہ انہیں مسٹر ٹین پرسنٹ بھی کہا جاتا تھا۔ ہے ناں مزے کی بات……
خیر بالکل تازہ خبریں آنے والی ہیں عوام ہر دن یا تو آٹے پٹرول کا سوچتے ہیں یا پھر عمران خان کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں …… یہاں دل کا بات بتا دوں کہ چوہدری پرویز الٰہی، اعجاز الحق اور دو ایک ایسے مہروں کے باوجود عمران خان بری طرح فکر مند دکھائی دیتے ہیں خوف کی گرفت میں ہیں کیوں؟!“ نہ کسی کو پتہ ہے نا مجھے…… لیکن پٹرول، آٹا، عمران خان آپ کے موضوعات ہیں میرا تو آج بھی موضوع اور مسئلہ ”ٹینڈ“ ہے۔