کیا ہم ذہنی غلام ہیں؟

کیا ہم ذہنی غلام ہیں؟

پورے پاکستان کو اِس وقت ایک ہی مدار میں گھمایا جا رہا ہے۔ یعنی سیاست دانوں کے نت نئے ایشوز، اقتدار کے لیے باہمی دشمنیوں کی انتہائیں اور فوج یا سکیورٹی اداروں کو اپنے مفادات میں گھسیٹنا وغیرہ جیسے ذہن کے لیے اذیت ناک معاملات دن رات چل رہے ہیں۔ میڈیا بھی زیادہ سے زیادہ کمرشل ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے اِس سیاسی ماردھاڑ اور چیخ و پکار کے علاوہ نہ کچھ اور دیکھ رہا ہے اور نہ ہی کچھ اور سن رہا ہے۔ دوسری طرف عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ انہی کے بنیادی حقوق کے لیے ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عمومی طور پر شہریوں کے آٹھ اہم بنیادی حقوق ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں  22کروڑ لوگوں کے اِن بنیادی حقوق کو کس طرح پامال کیا جارہا ہے۔ 1۔خودمختار رائے رکھنے کے بنیادی حق کے تحت لوگوں کو کسی مداخلت کے بغیر اپنے حاکم چننے اور سیاسی منصب لینے کی آزادی ہوتی ہے۔ پاکستان میں عموماً اس کی تشریح اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے حوالے سے کی جاتی ہے لیکن ٹی وی چینلز اور میڈیا پر دن رات سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے خلاف شدید الزام تراشیاں کیا عوام کو اپنی خودمختار رائے بنانے میں ایک مداخلت نہیں ہیں؟ کیا اِس مداخلت سے عوام کو ایک دوسرے کے خلاف گمراہ نہیں کیا جارہا؟ کیا عوام کے خودمختار رائے قائم کرنے کے اِس بنیادی حق کو سیاست دان اور میڈیا پامال نہیں کرتے ہیں؟ 2۔سیاسی آزادی بھی ایک بنیادی حق ہے۔ جس طرح کسی بازار میں ریڑھی اور ٹھیلے والے اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لیے راہ گیروں کو کھینچ کھینچ کر اپنی طرف بلاتے ہیں ویسے ہی سیاست دان لوگوں کو اپنی پارٹی کی طرف راغب کرنے کے لیے مخالفین کے خلاف دن رات تماشا لگاتے ہیں اور میڈیا اِن کی لائیو کوریج کرتا ہے۔ کیا اس دھونس بازی کے ذریعے عوام کی سیاسی آزادی کے حق کو سلب نہیں کیا جاتا ہے؟ 3۔انصاف کا حصول اہم بنیادی حق ہے۔ پاکستان میں عوام کے اَن گنت مقدمات برس ہا برس سے التوا کا شکار ہیں لیکن سیاست دان اپنے سیاسی جھگڑوں کے مقدمات روزمرہ بنیاد پر جلد سے جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔ کیا سیاست دانوں کے اپنے مفاد میں روزمرہ کے مقدمات عوام کے لیے حقیقی انصاف کے بنیادی حق کو پامال نہیں کرتے ہیں؟ 4۔آمدورفت کی آزادی جیسے بنیادی حق کو بھی سیاست دان اپنے پائوں تلے کچل رہے ہیں۔ اس کے تحت کوئی بھی شہری ایک جگہ سے دوسری جگہ آزادی سے آجا سکتا ہے لیکن ہمارے شہروں، سڑکوں اور بازاروں کو سیاسی جلسوں، دھرنوں اور احتجاجوں کے ذریعے اکثر بند کردیا جاتا ہے۔ اِس سے مریض بند راستے میں ہی مرجاتے ہیں، طلباء سکول نہیں جاسکتے، دفتروں میں کام ٹھپ ہوجاتا ہے اور کاروبار 
تباہ ہو جاتا ہے۔ سیاست دانوں کے راستے بند کرنے کے اِس قاتلانہ اور غیرقانونی اقدام کو میڈیا لائیو دکھاتا ہے۔ کیا اس طرح سیاست دان آمدورفت کے بنیادی حق کو بری طرح نہیں روندتے؟ 5۔سوچنے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت کوئی بھی شہری دوسرے فرد کی سوچ سے متاثر ہوئے بغیر اپنی سوچ رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست دان میڈیا کے ذریعے ہرلمحہ عوام کی سوچوں کو دوسروں کے خلاف پراگندہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آزادی سے سوچنے کے حق کو یہ نقصان پہنچانا کیا جرم نہیں ہے؟ کیا سیاست دان عوام کے آزادی سے سوچنے کے حق کو یرغمال نہیں بناتے؟ 6۔اظہارِ رائے کی آزادی جیسا بنیادی حق سیاست دانوں اور میڈیا کا پسندیدہ چاکلیٹ ہے۔ اس حق کی تشریح سیاست دان اور میڈیا حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنے اوپر لگائی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے ہی کرتے ہیں حالانکہ ایک لحاظ سے اکثر سیاست دان اور میڈیا بھی اظہار رائے کی آزادی کو پسند نہیں کرتے۔ مثلاً کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاست دان کے خلاف کوئی رائے سوشل میڈیا، عام میڈیا یا پبلک میں دی جائے تو اُس سیاسی جماعت کے کارکن رائے دینے والے کے خلاف وہ شرم ناک مہم شروع کرتے ہیں کہ بدترین فحش لٹریچر بھی شرما جاتا ہے۔ ہمارے ہاں آزادی رائے کی آزادی کو سیاسی ورکرز کی طرف سے ختم کرنے کی انسانیت سوز مثالیں یہاں تک موجود ہیں کہ مخالف سیاسی ورکرز کو سرعام زدوکوب کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ کچھ میڈیا ہائوس دوسرے میڈیا ہائوس کے خلاف کوئی بھی بات آزادی رائے کے حق کے طور پر لیتے ہیں لیکن اپنے ہی خلاف عوام کی رائے نہیں دکھاتے۔ آزادی رائے کا زور زور سے بھونپو بجانے والے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر بتائیں کہ کیا وہ آزادی رائے کا بنیادی حق صرف اپنے لیے تسلیم کرتے ہیں یا عوام کو بھی اس حق کی آزادی دیتے ہیں؟ 7۔پرامن اکٹھے ہونے کے بنیادی حق سے مراد یہ ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے پرامن طور پر اکٹھے ہوکر مختلف خیالات اور نظریات پر تبادلہ خیال کرسکیں لیکن مخالف خیالات اور نظریات کے حوالے سے معاشرے میں عدم برداشت کا سلسلہ جس حد تک پہنچ چکا ہے اُس کے پیش نظر عموماً دفعہ 144 لگا دی جاتی ہے جس کے تحت چار افراد بھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ سیاست دان تو اسمبلیوں میں بھی پُرامن نہیں رہتے۔ کیا اس بنیادی حق کو تباہ کرنے کا سہرا بھی سیاسی لوگوں کے سر نہیں ہے؟ 8۔پارٹی سازی کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت لوگ ملکی قانون کے مطابق پارٹی بناسکتے ہیں، کسی بھی پارٹی میں شریک ہوسکتے ہیں یا کسی بھی پارٹی سے نکل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعلقہ پارٹی اپنے ممبران کی فلاح و بہبود کے لیے ہروقت کوشاں رہتی ہے۔ ہمارے ہاں ہرسرگرمی میں سیاست گھس آئی ہے جس کے باعث ہراچھی اور فائدے مند سرگرمی بھی نقصان دہ ہوگئی ہے۔ اس حق کے حوالے سے اگر ہم غور کریں تو تحریک عدم اعتماد کا پیش ہونا یا ناکام ہونا ایک جمہوری عمل ہے لیکن اس کے بارے میں اِن دنوں دونوں فریق یعنی اپوزیشن اور حکومت جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں کیا وہ باہمی جمہوری احترام کو برباد نہیں کررہے؟ مذکورہ بالا انٹرنیشنل تسلیم شدہ بنیادی حقوق کو پاکستان میں پرکھ کر یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ میڈیا پر 24گھنٹے صرف اپنا سیاسی پراپیگنڈہ کریں؟ کیا یہ اقدامات بنیادی حقوق کے خلاف ہراسمنٹ کے زمرے میں نہیں آتے؟ کیا سیاست دانوں کے پاس بھوکے، ننگے، بدحال اور مرتے ہوئے عوام کی حقیقی فلاح و بہبود پر گفتگو کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے؟ اِن دنوں اپوزیشن اور حکومت کے جو جلسے اور جلوس منعقد ہورہے ہیں کیا وہ عام شہری کے ووٹ کے علاوہ دیگر بے شمار بنیادی حقوق کو پامال نہیں کررہے ہیں؟ اور یہ کہ کیا 22کروڑ لوگ سیاست دانوں اور میڈیا کے ذہنی غلام ہیں؟

مصنف کے بارے میں