اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس اور مضاربہ اسکینڈل کے 24 ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے جعلی اکاؤنٹس اور مضاربہ اسکینڈل کے 24 ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔
عدالت نے کوروناوائرس ایمرجنسی کے پیش نظر 24 ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ ضمانت پر رہا ہونے والوں میں جعلی اکاؤنٹس کے مرکزی ملزمان حسین لوائی، نجم الزمان، طحہ رضا، مصطفی ذوالقرنین مجید، خواجہ محمد سلیمان، فیصل ندیم، امان اللہ، ڈاکٹر ڈنشاہ شامل ہیں۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب حسن اکبر تارڑ نے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کی مخالفت کی۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک اخبار میں آج آرٹیکل چھپا ہے کہ حکومت ناراض ہے ملزمان کو کیوں چھوڑا گیا، آرٹیکل میں یہ کہا گیا کہ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا جو اس کے پاس نہیں تھا، ہم واضح کرتے ہیں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا بلکہ ضمانت پر رہا کرنے کی تمام درخواستیں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی جانب سے موصول ہوئی تھیں، سخت نامساعد حالات میں بھی نہ عدالتیں بند ہوں گی نہ بنیادی انسانی حقوق متاثر کرنے دیں گے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ جو ملزم وائرس سے متاثرہ ہو اسے رہا کردیں اس کی حد تک ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھریہ کرتے ہیں نیب تفتیشی افسران کو جیل میں بیٹھا دیتے ہیں وہ وہاں جاکر تفتیش کریں، بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت اپنا کام نہیں کر رہی، ان کا کام بھی عدالتوں کو کرنا پڑ رہا ہے، آج بھی بنیادی حقوق متاثر ہونے میں دنیا کے انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 120 ہے، یہ وہ ہیں جو کمزور ہیں نیب نے کبھی کسی مضبوط آدمی کو اندر کیا ہے؟ یہ جو لوگ قید میں ہیں ان کی عمریں کیا ہیں ہم نے جو دیکھا اس کے مطابق عمریں زیادہ ہیں، نیب کیسز میں پارلیمنٹ نے زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال رکھی ہے۔