اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو 7 رکنی بنچ سے الگ کر لیا۔ بعد ازاں سماعت میں وقفہ کر دیا گیا، عدالتی حکام کا کہنا ہے کہ درخواستوں پر سماعت کرنے والا بینچ 11 بجے واپس آئے گا، چیف جسٹس نیا بنچ تشکیل دیں گے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں7 رکنی بنچ درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ تھے۔
سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹروم پر آ کربینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لئے ان کے کندکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کی خواہش پر بنچ نہیں بن سکتے، آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ آپ جسٹس منصور پر اعتراض جانبداری پر اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور پر مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اعلیٰ درجے کے وکیل ہیں ، آپ پر عدالت کو اعتماد ہے، یہ ججز پر اعتراض کرنے کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، پہلے حکومت نے بینچ کے تناسب کامعاملہ اٹھائے رکھا۔ آپ ایک مرتبہ پھر بنچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میں نے تو پہلے ہی دن آ کر کہا تھا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔ دریں اثناء جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا.
سماعت کے دوران شعیب شاہین نے کہا کہ یہ کسی کا ذاتی کیس نہیں یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے جبکہ حامد خان نے ججز سے کیس سننے کی استدعا کی اور سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ جس جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سمجھنے کی کوشش کریں، یہ ججز کا اپنا فیصلہ ہے، میں یہ کیس نہیں سن سکتا۔
اٹارنی جنرل کے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو 7 رکنی بنچ سے الگ کر لیا۔
دوران سماعت حامد خان نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کر چکے ہیں۔
اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بنچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
بعد ازاں عدالتی حکام کی جانب سے فریقین کیلئے جاری ہدایت میں کہا گیا کہ 11 بجے بنچ دوبارہ آئے گا، چیف جسٹس نیا بنچ تشکیل دیں گےجس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔