جہالت کا تعلق تعلیم سے ہرگز نہیں، اس دور میں تو خاص طور پر وہ ایکسپوز ہوئے جو خود کو دانشور کہتے ہیں، تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جب بات کرتے ہیں تو صرف جہالت پر مبنی۔ نہ کوئی دلیل نہ کوئی حوالہ بس بولتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس کی فکری تربیت جناب عمران خان نے کی ہے اور خلیفہ ہارون الرشید، ارشاد بھٹی، عمران ریاض اور اس طرح کے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جو ان کی اتالیق ہیں۔ یہ بریگیڈ سوشل میڈیا کے ذریعے انقلابی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایک مہینے میں جو اربوں ڈالر خزانے میں چھوڑے تھے وہ کہاں گئے؟ ان کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ چین کے بنکوں سے آنے والے ڈالرز کے بعد اب زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر تک پہنچے ہیں۔ کیا اس بات میں کوئی شک باقی ہے کہ جان بوجھ کر پاکستان کو دلدل میں دھکیلا گیا اور اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے سازش اور مداخلت کا نعرہ بلند کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ قرار دلوانے کا منصوبہ کیوں کیا گیا اور وہ کون سی خواہشات تھیں جن کی تکمیل کے لیے معیشت کی راہ میں بارودی سرنگیں نصب کی گئی تھیں۔ کیا یہ سارا منصوبہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے۔ اب بھی یہ افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ پاکستان 80 ارب ڈالر کے بدلے ایٹمی پروگرام کو ترک کر دے اور معاشی فوائد حاصل کر لے۔ یوکرائین نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے جان چھڑائی تھی اور آج اس کا حال دنیا کے سامنے ہے۔
پاکستان کی معیشت جس تیزی سے تنزلی کا شکار ہے اس کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑا ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے آبادی کے ایک بڑے طبقے کے غربت کی لکیر سے نیچے جانے کے خدشات درست ثابت ہونے جا رہے ہیں اور مڈل کلاس کے معدوم ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے اب اس کے لیے زندگی بسر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ بجلی کو روئیں یا گیس کی قلت پر بین کریں۔ ڈالر کی اونچی اڑان دیکھیں یا گرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ کا نظارہ کریں۔ ہر جگہ مایوسی ہی مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ کیا اس سے بڑا جاہل طبقہ کوئی ہو سکتا ہے کہ ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور ان کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور وہ شادیانے بجا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ فوری طور پر الیکشن کا اعلان کرو۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک دیوالیہ ہو یا لوگ فاقوں سے خودکشی کریں۔ ان کے گھر کا کچن بھی کوئی اور چلا رہا ہے تو انہیں آٹے دال کے بھاؤ کا کیا علم۔ کل وزیراعظم شہبازشریف نے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کر دیا جس کے بعد سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ سرمایہ دار اس ملک سے کمانا چاہتا ہے مگر ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری عوام بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہے مگر ٹیکس نیٹ میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے شائد اس کی وجہ ٹیکس کا پیچیدہ نظام ہے۔ اس نظام کی خامیوں کو دور کر لیا جائے تو بہت سے مسائل ازخود حل ہو سکتے ہیں۔ وہ تمام ممالک جہاں پر ٹیکس کا کلچر موجود ہے وہاں پر کوئی کام ٹیکس کے بغیر ہونا ممکن نہیں۔ ٹیکس نہ دینے والوں کا بار ٹیکس دینے والے اٹھا رہے ہیں۔
جمعہ کی صبح قوم سے خطاب میں سپر ٹیکس کے اعلان کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہلچل مچا دی اور اس کے بینچ مارک کے ایس ای 100انڈیکس میں ٹریڈنگ رکنے سے پہلے 2ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی، دوپہر تک یہ 4.81 فیصد کم ہو کر 40ہزار پر تھا۔وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بعد ازاں ٹوئٹر پر
واضح کیا کہ ’سپر ٹیکس‘ ایک بار لگنے والا ٹیکس ہے جو پچھلے چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کرنے کے لیے درکار تھا، تمام شعبوں پر 4 فیصد سپر ٹیکس لاگو ہو گا لیکن 13 مخصوص شعبوں پر مزید 6 فیصد لگ کر یہ مجموعی طور پر 10فیصد ہو جائے گا اور 9 فیصد سے 29 فیصد پر پہنچ جائے گا۔ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اگلے سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے 47 ارب روپے کے ٹیکس ریلیف کا اعلان بھی واپس لے لیا گیا ہے اور ٹیکس چھوٹ کی حد کو 12 لاکھ روپے سے تبدیل کر کے 6 لاکھ روپے کردیا گیا جبکہ 100 روپے کے فکسڈ ٹیکس کو 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کے درمیان کمانے والے افراد کے لیے 2.5 فیصد ٹیکس سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔مجوزہ سلیب کے مطابق 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والے 2.5 فیصد ٹیکس ادا کریں گے جب کہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے کمانے والے پچھلے سال کے مقابلے میں 7.5 فیصد کے بجائے 12.5 فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔سالانہ 24 لاکھ سے 36 لاکھ روپے کمانے والے افراد سے ایک لاکھ 65 ہزار روپے کے علاوہ 24 لاکھ روپے سے زائد رقم کا 20 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔سالانہ 36 لاکھ سے 60 لاکھ روپے کمانے والوں سے 4 لاکھ 5ہزار روپے کے علاوہ 36 لاکھ روپے سے زائد رقم کا 25 فیصد وصول کیا جائے گا۔
کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں پر بارودی سرنگ نہیں بچھائی گئی۔ جب ایل این جی سستی تھی اس وقت اس کے سودے نہیں کیے گئے اور جان بوجھ کر نہیں کیے گئے تاکہ آنے والے اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکیں۔ پچھلی حکومت نے یہ سزا عوام کو دی ہے اور آج حکومت کو مہنگی ترین ایل این جی کی خرید کے معاہدے کرنا پڑے ہیں تاکہ نظام کو چلایا جا سکے۔ پاکستان جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس کا فائدہ گیس پیدا کرنے والے بھی اٹھا رہے ہیں اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 40 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر پاکستان کو کارگو فروخت کرنے کی پیش کش کی گئی جسے پاکستان نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ عالمی منڈی میں گیس کے سودے اس لیے بھی مہنگے ہو رہے ہیں کہ یورپ کو روس سے ملنے والی گیس بند ہونے کے باعث گیس پروڈیوسرز یورپ کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کیا حکومت کے پاس ٹیکسوں کو بڑھانے کے سوا کوئی اور راستہ تھا؟ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ دیوالیہ ہونے سے بچا جائے اور اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کے پاس اپنی درآمدات کے لیے ڈالرز موجود نہیں ہیں۔ حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بجلی کے بلوں پر ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جو آج بھی مزے لے رہا ہے اور وہ ہے زراعت سے ہونے والی آمدنی۔ اسمبلی میں صنعتوں سے وابستہ افراد کی تعداد کم ہے مگر ایک بڑا طبقہ وہ ہے جن کی تمام تر آمدنی ز راعت سے ہو رہی ہے اور انہوں نے زراعت سے ہونے والی آمدن پر ٹیکس نہیں لگنے دیا۔ یہ درست ہے کہ اس ٹیکس میں کسان کو نہیں آنا چاہیے لیکن جو اس مد میں اربوں کھربوں کما رہے ہیں ان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا ازحد ضروری ہے۔ صنعتوں اور تاجروں پر ٹیکس کی بات ہر کوئی کر رہا ہے مگر زراعت سے حاصل ہونے والی آمدن اب بھی ٹیکس فری ہے۔ تاجروں پر فکس ٹیکس بھی سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حکومت کے پاس اس کے پاس ان سے ٹیکس وصول کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان جس مشکل معاشی دور سے گذر رہا ہے اس میں وہ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لے رہا ہے اور کشکول اٹھا کر دنیا میں رسوا ہو رہا ہے۔ ایسی رسوائی پہلے کبھی نہیں دیکھی کہ دنیا پاکستان کے ساتھ انگیج ہونا چاہتی تھی مگر خان نے پاکستان کو تنہائی کا شکار بنا کر ہم سے وقار بھی چھین لیا ہے۔ ہمارے کرایے کے دانشور اس کا محاسبہ کرنے کی بجائے درست ہے آپ کا فرمایا ہوا کی گردان کر رہے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف لوگوں سے قربانی مانگ رہے ہیں اور انصار مدینہ کی یاد تازہ کرنے کی بات کر رہے ہیں مگر جن لوگوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ان کے خلاف کوئی بات کر رہے ہیں اور نہ ان کا محاسبہ کر رہے ہیں۔ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں تو انہیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے کہ معیشت کے یہ حالات کیوں ہوئے ہیں اور اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ سازش خان کے خلاف نہیں ہوئی بلکہ قوم کو بتائیں کہ پاکستان کے خلاف خا ن نے سازش کی ہے؟ وہ کون ہے کی رٹ لگانے والوں کو بتایا جائے کہ وہ کون ہے جس نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے وہ کون ہے جس نے سیاسی فائدے کے لیے معیشت پر آنے والے بوجھ کو خزانے پر ڈال کر خزانہ خالی کر دیا۔ وہ کون ہے جو ملک کے دیوالیہ ہونے کی خوشی منا رہا ہے؟ ایسے دانشوروں کے منہ پر ان کی سابق امی جمائمہ گولڈ سمتھ نے زور کا تھپڑ جڑ دیا ہے جب فادرز ڈے پر اس نے اپنے بچوں بشمول ٹیریان کی تصاویر واٹس اپ پر جاری کر دیں اور یہ تصاویر بچوں کے باپ کے ساتھ نہیں تھی یوں اس خاندان نے اس سے بریت کا اعلان کر دیا۔ اس علامتی تھپڑ کا نشان ان کے گالوں پر بہت گہرا نقش ہوا ہے۔ ان تصاویر میں قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جو شخص اپنے بچوں کی کفالت نہیں کر سکتا، ہمارے کچھ دانشور اسے مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔