ویسے تو ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم یہ سنتے کہتے لکھتے تھک چلے ہیں: دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی! مشرقی پاکستان کا سانحہ، افغانستان پر روس کی یلغار، اس کی شکست پر بوسنیا، چیچنیا، کوسوو، دوسری جانب سدا سے پستے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی خونچکاں داستانیں، جنگ خلیج، اور پھر نئی صدی کے آغاز پر تیسری صلیبی جنگ میں پوری دنیا کی شمولیت لیے افغانستان پر حملہ، عراق، شام، یمن، لیبیا، مالی، صومالیہ…! ڈوبتے روہنگیا، بدھوں کی امن پرستی کے پردے میں جابجا مسلمانوں کی شامت۔ دعا کے لیے اٹھتے ہاتھ پورے گلوب پر چھائی گھمبیرتا کا احاطہ کرتے تھک جاتے بلائیں ٹلنے کا کوئی سماں نہ بنا۔ ہماری شامتِ اعمال کے ہاتھوں۔ واحد امید کی کرن لیے افغانستان میں آزادی اور کلمۃ اللہ ھی العلیا … اونچا اور سربلند ہوکر رہنے والا اللہ کا کلمہ ہر سو لہرایا۔ سوکھے دھانوں پر پانی پڑا۔ کچھ دن امریکی شکست نے میڈیا اور دنیا کو دم بخود کیے رکھا۔ افغانستان میں حکومت چلانے میں طالبان کی ناکامی کی پیش گوئیاں کرنے والوں کی امیدیں بر نہ آئیں۔
دنیا بھر سے حکومت تسلیم نہ کرنے، امریکا کے افغان اثاثوں پر غاصبانہ قبضے اور ہمہ نوع بائیکاٹ کے باوجود افغانستان میں (ماسواداعش) مثالی امن ہے۔ عوام دوست، مہربان حکومت، نفاذ ِشریعت کے اعتبار سے باحکمت تدریج مگر استقامت اور مستقل مزاجی سے کام لے رہی ہے۔ حکمران طالبان ناقابل یقین سادگی پر عمل پیرا ہیں۔ چیف جسٹس افغانستان فرش نشیں دسترخوان پر روٹی اور ایک سالن لیے لنچ، ڈنر کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ نہ 10 کورسز کے ڈنر ہوتے ہیں، نہ بیمار ہوکر لندن امریکا دبئی، حکومتی اخراجات کے بل پر ہسپتالوں کے بل چکانے کی نوبت آتی ہے۔ بے شمار سرکاری اہل کار عوام کو روٹی دو وقت فراہم کرنے کی خاطر تنخواہ نہیں لے رہے۔ یہاں کروڑوں کی گاڑیاں اور مفت پیٹرول وزراء، افسران آج بھی بٹور رہے ہیں۔ افغانستان کی خبروں کا بلیک آؤٹ چل رہا ہے۔ ایسی خبریں کس منہ سے لگائیں کہ ڈالر 209 روپے کا یہاں ہے اور وہاں ڈالر 89 افغانی پر حقیر ہوا بیٹھا ہے۔ وہاں سستائی ہے اور یہاں کمرتوڑ مہنگائی۔ بلکہ اب تو لگتا ہے افغانستان سے باہر پوری دنیا مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔
امریکا یہاں سے رسوائی بھرا بوریا بستر سمیٹ کر گھر پہنچا نہ تھا، ابھی صدمے سے باہر نہ آیا تھا کہ روس نے امریکا یورپ کی خدائی کے لیے یوکرین میں چیلنج اٹھا کھڑا کیا۔ عالمی معیشت تجارت، سیاست سبھی کچھ ایک زلزلے کی زد میں آگئی۔ اس وقت امریکا میں مہنگائی کا41 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ شرح سود میں اضافہ ہوگیا۔ برطانیہ میں شرح سود پانچویں مرتبہ بڑھا دی گئی۔ مہنگائی اور سود کا شکنجہ لاکھوں کے لے مرگ مفاجات کا طوفان لا رہا ہے۔ یہاں حیدرآباد اور نواب شاہ میں موٹرسائیکل اور رکشے جلاکر لوگوں
نے احتجاج کیا۔ بھارت میں فوجی بھرتیوں کے متنازع نظام کے خلاف عوام بپھر اٹھے۔ انتہائی پرتشدد مظاہروں میں ٹرینیں روک کر جلا دیں، بی جے پی کے دفاتر نذر آتش کردیے۔ مسئلہ ہر جا یہی ہے کہ حکومتیں اپنے اللوں تللوں سے باز نہیں آتیں، بہانے بہانے بوجھ عوام کی جھکی کمر پر لادنے پر تلی رہتی ہیں۔ آئی ایم ایف کے بعد ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری ہونے پر حکومت بغلیں بجا رہی ہے۔ حنا ربانی کھر، وزیراعظم سبھی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ البتہ عوام کو مبارک نہیں دی گئی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے! ہمیں بھی تو پتہ چلے کن شرائط پر عمل درآمد مکمل کیا گیا ہے۔ اتنا حق تو لڑکی کو بھی دیا گیا ہے کہ ولی اس کی رضامندی اور علم سے رشتہ طے کرے۔ یہاں پوری قوم کو اس کے ولی عالمی مہاجنوں کے ہاں اعتماد میں لیے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح باندھ دیتے ہیں۔ بیوپاری اندھی سوداگریوں سے مال بناتے ہیں۔ان پر ہم نے کبھی تنگی سختی آتے نہیں دیکھی۔ وہ پہلے ہیلی کاپٹروں میں (ایک ارب کا پیٹرول) اڑے اڑے پھرتے رہے۔ اب والے بھی آن بان شان سبھی برقرار رکھے بیٹھے ہیں۔ ہر دور میں پچھلوں کے لوٹ مار کے مال کی جوابدہی پر نوراکشتی جاری رہتی ہے، حاصل وصول کچھ نہیں۔ ہر دور میں منصوبہ بندی میں سدا سے سبھی صفر رہے۔ بڑے بڑے وفود لیے بیرون ملک سیر سپاٹے شاپنگ جاری رہتے ہیں، حکومت کوئی بھی ہو۔ ہم نے انہیں عالمی مہاجنوں کے ہاتھوں کبھی بلیک لسٹ ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ عوام ہی کا خون پسینہ اپنے شکنجوں میں لیے نچوڑتے ہیں۔ افریقہ میں غلاموں کی تجارت کی طرح ہمارے ساتھ ہمارے یہ سردار سوداگری کرتے ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل نے سابق افغان حکمرانوں کی عیاشیوں سے پردا اٹھایا ہے۔ وہ کس طرح افغانستان کی دولت پر ہاتھ صاف کرکے اب لاکھوں ڈالر کی جائیدادیں بنائے بیرون ملک داد عیش دے رہے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ اکلیل احمد حکیمی امریکا میں 10 جائیدادوں کے مالک، کیلی فورنیا کے پرتعیش بنگلے میں مزے لوٹ رہے ہیں، اپنے عوام کو کنگال کرکے۔سابق وزرائے معیشت خالد پائیندہ اور مصطفی مستور کروڑوں ڈالر کی جائیدادیں (عوام سے مستور رہ کر لوٹنے والے) لیے بیٹھے ہیں۔ مزید دو وزراء بھی اسی زمرے میں ہیں وہاں۔ یہ امریکی حکومت کی مسلط کردہ افغان جمہوریت (اور عملاً ہر مسلم ملک کی ایسی ہی جمہوریت) ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پچھلی ساری (ایک جیسی) حکومتوں کے امیر کبیر صدور، وزرائے اعظم، بیرون ملک خاموشی سے جا بسنے والے جج جرنیل سبھی عوام کی عدالت میں لائن حاضر کیے جائیں۔ ان کے اثاثہ جات کی بے لاگ قیمت لگواکر بحق عوام ضبط کیا، نچوڑا جائے۔ ریاستِ مدینہ کے سبھی تاجداروں اور عمر بن عبدالعزیزؒ کی مانند وہ عوام کی سطح پر مال رکھیں۔ عوام کا سمیٹا مال قومی خزانے میں جمع کروا دیا جائے۔ عوام کے دن بدلنے کی ضرورت ہے، مگر اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ملین ڈالر سوال ہے۔ ملک کی خیرخواہی میں کسی ایک نے بھی حقیقی منصوبہ بندی کی ہوتی۔ ڈیم بنائے ہوتے بجائے عوام کو ڈیم فول بنانے کے۔ ثاقب نثار کا ڈیم فنڈ کا غلغلہ کہاں رہ گیا؟ہماری زراعت مضبوط ہوتی۔ بجلی کا بحران ختم ہوتا۔ پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ بے شعوری میں پانی کا ضیاع اور پینے کے پانی سے محرومی۔ بجائے قرضے لے کر منصوبوں کی چھلنی سے مال چھن چھن کرتا منصوبہ سازوں کی جیبیں بھر کر عوام کے حصے میں صرف بے روزگاری اور مہنگائی دینے کے عملی اقدامات ہوتے۔ بجلی دے نہیں رہے ہم پر گرا رہے ہیں۔ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر، کے مصداق۔ سارا زور پیداواری منصوبوں کی بجائے ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر ہے۔ بڑے بڑے ادارے دفاتر گزشتہ 20 سالوں میں سبھی نے باری باری اٹھا کھڑے کیے۔ بھاری مشاہروں پر رکھے افسران، گاڑیوں کی ریل پیل، آسمان سے باتیں کرتی بلڈنگیں، اندر بدعنوانی لوٹ مار کا لگاگھن، بے کاری، عیاری، اڑتی خاک۔ ترقی ان مظاہر کا نام نہیں۔ شاندار موٹرویز پر دوڑتی سودی گاڑیاں یا سرکاری پیٹرول پر رواں لینڈ کروزریں اور ان کی ریل پیل۔ خوبصورت میٹرو بس سروس خودکار الیکٹرک سیڑھیاں (جو مسکین ملک کہاں جھیل سکتا ہے) مظاہر کے پیچھے اب تک کم وبیش آدھا پاکستان ان جھٹکوں میں خط غربت کے نیچے بیٹھا سسک رہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ مسلسل جبری گمشدگی والے لاپتا افراد پر اظہار ناراضی کر رہا ہے۔ 21 سال سے چلنے والا یہ ریاستی جبر وظلم۔ اس میں سبھی مجرم ہیں۔ حکومتیں، اپوزیشن، عوام، عدالتیں سبھی جوابدہ ہیں۔ امریکی نوازی میں منہ مانگی لاشیں دی گئیں۔ عقوبت خانوں میں جھونکے گئے۔ ہر چیف جسٹس گونگلوؤں سے صرف مٹی جھاڑتے غریب مسکین قوم سے بے پایاں مراعات سمیٹ کر فراہمیٔ انصاف کے بغیر اپنے عیش کدوں کو (ریٹائر ہوکر) پیارے ہوجاتے رہے۔ عوام نے منہ موڑا اپنی کھال بچائی، آج آئی ایم ایف پیٹرول چھڑک چھڑک کر سبھی کی کھال ادھیڑ رہی ہے۔ آج بھی حسب سابق وہی جواب وفاقی حکومت دے کر فارغ ہوتی ہے کہ ’کمیٹی بنا دی گئی ہے‘۔ان کی کمیٹیاں ڈالروں میں نکلتی رہیں۔ اور عوام کے حقوق کمیٹیوں کے سرد خانوں میں دفن ہوتے رہیں! خود اس کی بنیاد رکھنے، جواز بخشنے اور ہزاروں خاندانوں کو رنج وغم کی سلگتی بھٹیوں میں اتارنے والا پرویزمشرف کس حال میں ہے؟ پناہ بخدا! دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو، میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہو۔ جسم کے ایک ایک خلیے میں تکلیف بھر گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کی سالہاسال کی آزمائش، گوانتامو کو بیچے قیدی! نہ جا اس کے تحمل پر… ڈر اس کی دیر گیری سے! ابھی آخرت باقی ہے! اللہ ہمیں ایمان، شعور اور ہوش دے۔ زندگی بے انتہا مختصر ہے۔ آگے کا سفر لامنتہا ہے۔ اللہ سلامتی سے رکھے اور سلامتی سے گھر واپس لے جائے، دنیا وآخرت کی آزمائشوں سے مامون رکھ کر! (آمین)